Leave a comment

ہمارے ناول اور جہاد بالقلم

فیس بک پر ویسے تو کام کی پوسٹ ڈھونڈنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں مگر  کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اندھے کے ہاتھ میں بٹیر آ جاتا ہے اور وہ خود کو شکاری سمجھنے لگتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا مگر شکاری ہم یوں نہ بن پائے کہ جن محترمہ کی پوسٹ تھی انھوں نے ہمیں ٹیگ کر رکھا تھا۔ پوسٹ میں یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا ناولوں میں رومانس کا کھلم کھلا اظہار جائز ہے اور یہ کہ ایسا کرنے والے قلم کار کیا ‘جہاد بالقلم’ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؟

ہمارے ناولوں پر ہی آج کل ڈرامے بن رہے ہیں اور بعض پر تو فلمیں بھی بنتی رہی ہیں۔ اب ہم فلم نہیں دیکھتے تو موجودہ صورت حال سے لاعلم ہیں مگر یہ سوال بہرطور ڈراموں اور فلموں کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سب سے پہلے تو ہم یہ واضح کر دیں کہ کچھ اجزاء ناول کے لیے ضروری ہیں جن کے بغیر ناول نہیں چل سکتا۔ ان میں ہیرو، ہیروئن،ولن ان کے خاندان والے، ان کے جانثار دوست اور سہیلیاں اور ظالم سماج۔ لڑکی چندے ماہتاب چندے آفتاب ہے۔ لڑکے کو کسی نہ کسی طرح لڑکی کو دیکھنا بھی ہے اوردل و جان سے فدا بھی ہونا ہے۔ لڑکی نے پہلے تو لڑکے کو اہمیت نہیں دینی مگر پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں بھی آگ بھڑک اٹھنی۔ دونوں نے چھپ چھپ کر ملنا۔ کبھی کالج میں کبھی کسی سہیلی کے گھر۔باغوں میں تنہائی میں۔ زندگی بھر ساتھ نبھانے کے عہد و پیمان کیے جاتے۔آخر بکرے کی  ماں کب تک خیر منائے گی۔ عشق اندھا ہوتا ہے مگر محلے والوں کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ سو پتہ چل ہی جاتا ہے۔ اب ظالم سماج کا کردار شروع ہوتا ہے۔لڑکے کے والدین کو اعتراض ہوتا ہے کہ لڑکی ہمارے معیار کی نہیں یا پھر لڑکی کی بچپن سے ہی اپنے ان پڑھ اور گنوار چچا زاد سے منگنی ہو چکی ہوتی۔ اب کہانی میں نیا موڑ آتا۔  دونوں ہر حال میں  ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے عہد پر کاربند رہتے اور یوں اب آہ و زاریوں کا دور شروع ہو جاتا۔ کمزار دل قارئین دعائیں کرتے نفل مانگتےاور بہت منتوں مرادوں سے یہ دونوں کوئی ڈیڑھ ہزار صفحوں کے بعد ایک ہوتے تو قارئین کی جان میں جان آتی ہے۔

یہ ہر ناول کی کہانی ہے جس میں حسب ضرورت کچھ تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ یہ ضروری ہیں ورنہ ناول کی صنعت جمود کا شکار ہو جائے گی۔ اس لئے اس پر کسی کو اعتراض نہیں کہ لوگوں کے اتنے گھنٹے بلکہ دن اور مہینے ضائع کروا دیے۔ پہلے ہی یہ سب ہو جاتا تو کوئی حرج تھا بھلا؟اعتراض ہے تو لڑکے لڑکی یا بعض ناولوں میں میاں بیوی کی تنہائی کے لمحات کو اپنے الفاظ سے یوں بیان کرنا کہ پڑھنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ اکرچہ آج کل تو کم ہی لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہینچتی ہے مگر ان کو بھی کیوں پہنچے۔

اس کے برعکس اگر کہانی کچھ ایسی ہو کہ لڑکی شرعی پردہ کرتی ہو اور لڑکا سرکاری ملازمت کرتا اور تبلیغی جماعت سے وابستہ ہو۔ لڑکی کے والدین کے کسی جاننے والے سے رشتہ کا پتہ چلے اور لڑکے کے والدین رشتہ لے کے آئیں۔ لڑکی والے پوچھین گے کہ آپ کے برخوردار کیا کرتے ہیں؟ جواب ملے گا کہ سرکاری ملازم ہے۔اسکے علاوہ کیا مشاغل ہیں؟

پابند صوم و صلٰوہ ہے۔ فارغ اوقات میں انٹرنیٹ اور فیس بک دیکھ لیتا ہے۔

آپ کی بیٹی کیا کرتی ہے؟

ایم اے کیا ہے۔ نوکری ہم نے نہیں کرنے دی۔ گھر داری کرتی ہے۔ ماشاءللہ خوب صورت و خوب سیرت ہے۔ بس کبھی کبھی فیس بک پر کینڈی ساگا کرش کی درخواست بھیجتی رہتی ہے دوستوں کو جب اردگرد سے بیزار ہو جائے۔

لڑکے والے” ہمیں آپ کی بیٹی پسند آئی۔ ہمارے بیٹے کو اپنی فرزندی میں لے لیجیے”۔

ہم اس عزت افزائی پر مشکور ہیں پر ہمیں کچھ سوچنے کا موقع دیں۔ بیٹی کی مرضی بھی معلوم کرنی ہے۔

اگلے ہفتے لڑکی والے ہاں کر دیتے ہیں اور چند ماہ بعد شادی ہو جاتی ہے جس کے بعد دونوں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ اب ایسی کہانی تو دو چار صفحوں میں ختم  ہو جانی۔ پڑھنے والوں کا دل بھی نہیں بھرتا۔ سو کچھ مصالحہ تو ڈالنا پڑتا ہے۔ مگر مصالحہ ایسا ہو کہ اپنی اقدار و روایات سے نہ ٹکرائے۔ ایسے مناظر محض ٖضرورت کے مطابق اورناول کا جزو ہونا چاہیے نا کہ ناول کا کل۔

ناولوں میں ایسے مناظر کچے ذہنوں کو زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کچے زہنوں کو ناول پڑھنے ہی نہ دیں۔  باکل ایسے ہی جیسے حکومت اہم دنوں پر موبائل سموں کو بند کر دیتی ہے تا کہ دہشت گرد اپنی کارررائیاں نہ کر پائیں۔ کیونکہ عریانی و فحاشی روکنا تو شاید ممکن نہیں تو کچے ذہنوں کو ہی روک لیجیے۔

ایک طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مناظر سے ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق اثر لیتا ہے۔ سمجھ دار لوگ بالخصوص لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ یہ محض  افسانہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں-جبکہ بعض لوگ پڑھتے ہی عریانی کے لئے ہیں۔ ناول میں نہ ہوا تو فلمیں، ڈرامے اور انٹرنیٹ ہر جگہ ان کو اپنی مطلوبہ  چیز مل جانی ہے۔ تاہم یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ناولوں میں بھی ایسے بے ہودہ مناظر ڈال دیے جائیں۔

ہماری رائے میں تو ناول بھی دوسری موبائل، چھری، ٹیلی وژن، کمپیوٹر کی مانند اپنی اصل میں نے ضرر ہیں۔ جس طرح اول الذکر اشیا کا نفع و ضرر ان کے استعمال میں ہے بالکل یہی معاملہ ناول کا ہے۔ یہ قلم کار پر ہے کہ وہ اس سے تعمیر کا کام لیتا ہے یا تخریب کا۔

دوسری بات جہاد بالقلم کی کی گئی ہے۔ ہماری  رائے میں تو کسی کی شادی کروانا خواہ ناول یا ڈرامہ میں ہی کیوں نہ ہو، خواہ اگلا  شادی کرنا چاہے یا نہ چاہے بڑی نیکی اور جہاد ہے۔  اس دور میں ہر چیز کے معنی ہی بدل چکے ہیں۔ ہمارے ہاں اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ ہم شرافت کو بیوقوفی، امارت کو عزت اور عیاری و مکاری کو سمجھ داری گردانتے ہیں۔ ہمارے ہاں دہشت گرد بھی جہاد کرتا ہے اور سپاہی بھی مرنے پر شہید ہے۔ کوئی پھانسی لگ جائے، کوئی بلیو ایریا جانے کے لیے نکلے اور مارا جائے سب شہید ہیں۔ ہمارے ملک کی کچھ اداکارائیں ہمسایہ ملک جا کر بے لباس ہونے کو فن اور ملک کا نام روشن کرنا کہتی ہیں تو کسی نے رومانوی ناولوں کو ‘جہاد بالقلم’ کہہ دیا تو کون سا گناہ کیا؟   لوگ خود سمجھ دار ہیں سب جانتے ہیں کہ کون جہاد کس راستے میں کر رہا۔ اللہ کے رستے میں یا طاغوت کے  رستے میں۔ اپنے منہ سے تو شیطان بھی اپنی برائی نہیں کرتا۔

 

اپنی رائے سے نوازیئے۔