دوستی کی درخواست بھیجنے کا طریقہ
شرمین عبید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں -معاشرتی ناہمواری اور تیزاب گردی کی شکار خواتین کے واقعات پر فلمیں بنانے پر انھیں آسکر انعام بھی مل چکا ہے۔ فلمیں ہم نے کم ہی دیکھی ہیں مگر امید ہے کہ اچھی ہوں گی یا نہ بھی ہوں توایک طبقے کو وہ بہر حال پسند آئیں تبھی تو انھوں نے آسکر شرمین عبید کو دے دیا۔ جیسے پولیس کوہر شخص مشکوک نظرآتا ہے ایسے ہی شرمین کوہرمرد ظالم اور تیزاب پھینکنے والا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ پچھلے دنوں ہوا جب ایک ڈاکٹر نے ان کی ہمشیرہ کو فیس بک پر دوستی کی درخواست کی۔ بہن نے ان کوبتایا اور انھوں نے فوراً اسے جنسی ہراساں کرنے کا کیس بنا کر عالم میں پیش کیا۔ اس کا پہلا شکار تو ڈاکٹر بنا۔ اس کی چھٹی ہو گئی یقیناً اسے سبق یاد ہو گا۔ اس کے گھر والوں اور اس کے بچوں کو سزا ملی درخواست بھیجنے کی کہ نوکری سے گھر چلتا ہے ہر کسی کا۔تاہم سنا ہے کہ انھیں کسی دوسرےہسپتال نے نوکری دے دی ہے۔ ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔
ہر تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔ اس واقعے کوبھی استثنٰی نہیں۔ ہمارےہاں لڑکیوں کی شادی کے موقع پر اکثر لوگ انھیں نصیحت کرتے ہیں کہ اب سسرال کو اپنا گھر سمجھنا ۔ ڈولی میں وہاں جا رہی ہو اور وہاں سے اب آنا تو میت کی صورت ہی آنا۔بعض لوگ ایسے اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جو ان سے وہی سلوک کرتے ہیں جو نوے فیصد خاندان اپنی بہو کے ساتھ کرتے ہیں۔یعنی کہ نہ ان کو چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی ام لا استعفٰی قبول ہوتا ہے۔ وہ بعد از ریٹائرمنٹ ہی چھٹی پاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ کچھ بھی کر لیں انھیں چھٹی نہیں ملتی۔ خود ہمیں بھی سعودی عرب جاتے ہوئے اس کا تجربہ ہو چکا ہے جب ہمارے صاحب نے ہمیں چھٹی دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب کسی کو چھٹی نہ مل رہی ہو یا وہ اپنی نوکری بدلنا چاہتا ہو مگر اس کا ادارہ اس کو چھوڑنہ رہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ کو دوستی کی در خواست کرے۔اللہ نے چاہا تو من کی مراد پوری ہو گی۔
شرمین عبید کیونکہ ایک بڑا نام ہے اور ان کے چاہنے اور پیروی کرنے والے بھی بہت ہیں تو یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان کی دیکھا دیکھی دوسری خواتین بھی دوستی کی درخواست کو جنسی ہراسگی کےمعنوں میں لیں ۔ انجام کار جس کو بھی پیشکش کی اس نے اس کا الٹا مطلب ہی لینا۔ چنانچہ کوئی بھی کسی کو درخواست کرنے کا خواہش مند ہو وہ پھر نوکری پر فاتحہ پڑھ لے۔ فیس بک میں دوستی کے علاوہ اور کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔ اب انھیں دشمنی کا اور بے پرواہ رہنے کا اختیار بھی دینا چاہیے۔
ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعی ایسے ہی بھونڈے انداز میں دوستی کی پیشکش کی ہو کہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہوں اور ہم خواہ مخواہ ہی ان کو الزام دیئے جا رہے ہوں۔ ڈاکٹرنے درخواست کے ساتھ پیغام میں لکھا ہو کہ میں تمھارا ڈاکٹر ہوں۔ مجھ سے دوستی کرو تو ہر بیماری کا علاج میرے ذمہ۔ دوسری صورت میں ایسا کوئی انجکشن لگائوں گا کہ ساری عمر صحت کو ترسو گی۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی پیغام کسی صورت بھی قابلِ برداشت نہیں تاہم شرمین صاحبہ کو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کے وسائل زیادہ نہیں ہیں سو یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو مہذب انداز میں دوستی کی درخواست بھیجنا سکھائے۔ ادارے طالبعلموں کو انجنئر’ ڈاکٹر اور فوجی تو بنا دیتے ہیں مگر بنیادی باتیں جیسے نوکری یا دوستی کی درخواست دینا نہیں سکھاتے۔ سو درخواست سے تاثرنہیں بن پاتا اوریوں ادارے اور لوگ گدڑیوں کے لعلوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوستی کی در خواستوں کا ہمیں علم نہیں کہ ہم اپنے اچھی طرح جاننے والوں کو ہی بھیجتے ہیں کہ جن کے لئے نام ہی معیار ہوتا ہے تاہم نوکری کی درخواستیں ہم نے بے تحاشہ دی ہیں۔ جو کہ قریب قریب سب ہی مسترد ہوئی ہیں۔ ان کے مسترد ہونے سے ہی ہم عرضی لکھنے میں ماہر ہوئے ہیں بالکل ایسے جیسے اچھے استاد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ طالب علم بھی اچھا رہا ہو۔مختلف محکموں میں عرضیاں دے دے کر ہم نے یہ سیکھا ہے کہ عرضیاں کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں بس نفسِ مضمون مختلف ہوتا ہے۔ سوکسی لڑکی کو دوستی کی درخواست بھی بطور نمونہ پیش ہے
محترمہ۔۔۔۔۔۔
ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔
مودبانہ گزارش ہے کہ فدوی آپ کے حضور دوستی کے عہدے کے لئے امیدوار ہے۔ فدوی کو اس کام میں پانچ سال کا تجربہ ہے اور کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ دوست لڑکیوں کے تجربے کے سرٹیفیکیٹ بمعہ اسناد منسلک ہیں۔
العارض
۔۔۔۔۔۔۔
مورخہ ۔۔۔۔۔
درخواست لکھنا ایک قدم ہے۔ اس سے نوکری نہیں ملتی تو دوستی کیسے ملے گی۔اس کے بعد متعلقہ اسناد کی نقول لازم ہوتی ہے۔ دو پاسپورٹ سائز کی تصاویر(کونسلرسے تصدیق شدہ)، چال چلن کا سرٹیفیکیٹ متعلقہ تھانے سے تصدیق شدہ مع شناختی کارڈ کی نقل کے بھیج دیں۔ ہم وطن والوں کے لئے یہ اسناد کافی ہیں۔ بیرون ملک سے دوستی کے خواہشمند افراد کو اپنے پاسپورٹ کی نقل، ویزہ کی نقل اور عدم دھوکہ دہی اور عدم جنسی تفریق کا حلف نامہ (اوتھ کمشنر یا جج درجہ اول سے تصدیق شدہ) اور پولیو کے قطروں کی ویکسینیشن بھی لگانی ہوں گی۔ اگر حلف نامے کے ساتھ پولی گرافک ٹیسٹ کی رپورٹ بھی لگی ہوئی تو امید واثق ہے کہ آپ کو انٹر ویو کے لئے طلب کر لیا جائے گا۔ انٹرویو میں آپ سے کچھ بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں آپ سرخرو ہو گئے تو ایک ہفتے کے لئے دوستی آپ کی۔ اس میں مزید اضافہ آپ کی کارکردگی دیکھ کر کیا جائے گا۔
اب ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستی کی درخواست کیجیے اور تاخیر سے گریز کیجیے۔ حالات جیسے جا رہے ہیں ، بعید از قیاس نہیں کہ جلد ان دستاویزات کے علاوہ این ٹی ایس پاس کرنا اور شادی شدہ افراد کے لئے بیگمات کی رضامندی کا فارم لگانا بھی ضروری ہو جائے۔
ہر تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔ اس واقعے کوبھی استثنٰی نہیں۔ ہمارےہاں لڑکیوں کی شادی کے موقع پر اکثر لوگ انھیں نصیحت کرتے ہیں کہ اب سسرال کو اپنا گھر سمجھنا ۔ ڈولی میں وہاں جا رہی ہو اور وہاں سے اب آنا تو میت کی صورت ہی آنا۔بعض لوگ ایسے اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جو ان سے وہی سلوک کرتے ہیں جو نوے فیصد خاندان اپنی بہو کے ساتھ کرتے ہیں۔یعنی کہ نہ ان کو چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی ام لا استعفٰی قبول ہوتا ہے۔ وہ بعد از ریٹائرمنٹ ہی چھٹی پاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ کچھ بھی کر لیں انھیں چھٹی نہیں ملتی۔ خود ہمیں بھی سعودی عرب جاتے ہوئے اس کا تجربہ ہو چکا ہے جب ہمارے صاحب نے ہمیں چھٹی دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب کسی کو چھٹی نہ مل رہی ہو یا وہ اپنی نوکری بدلنا چاہتا ہو مگر اس کا ادارہ اس کو چھوڑنہ رہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ کو دوستی کی در خواست کرے۔اللہ نے چاہا تو من کی مراد پوری ہو گی۔
ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعی ایسے ہی بھونڈے انداز میں دوستی کی پیشکش کی ہو کہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہوں اور ہم خواہ مخواہ ہی ان کو الزام دیئے جا رہے ہوں۔ ڈاکٹرنے درخواست کے ساتھ پیغام میں لکھا ہو کہ میں تمھارا ڈاکٹر ہوں۔ مجھ سے دوستی کرو تو ہر بیماری کا علاج میرے ذمہ۔ دوسری صورت میں ایسا کوئی انجکشن لگائوں گا کہ ساری عمر صحت کو ترسو گی۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی پیغام کسی صورت بھی قابلِ برداشت نہیں تاہم شرمین صاحبہ کو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کے وسائل زیادہ نہیں ہیں سو یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو مہذب انداز میں دوستی کی درخواست بھیجنا سکھائے۔ ادارے طالبعلموں کو انجنئر’ ڈاکٹر اور فوجی تو بنا دیتے ہیں مگر بنیادی باتیں جیسے نوکری یا دوستی کی درخواست دینا نہیں سکھاتے۔ سو درخواست سے تاثرنہیں بن پاتا اوریوں ادارے اور لوگ گدڑیوں کے لعلوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوستی کی در خواستوں کا ہمیں علم نہیں کہ ہم اپنے اچھی طرح جاننے والوں کو ہی بھیجتے ہیں کہ جن کے لئے نام ہی معیار ہوتا ہے تاہم نوکری کی درخواستیں ہم نے بے تحاشہ دی ہیں۔ جو کہ قریب قریب سب ہی مسترد ہوئی ہیں۔ ان کے مسترد ہونے سے ہی ہم عرضی لکھنے میں ماہر ہوئے ہیں بالکل ایسے جیسے اچھے استاد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ طالب علم بھی اچھا رہا ہو۔مختلف محکموں میں عرضیاں دے دے کر ہم نے یہ سیکھا ہے کہ عرضیاں کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں بس نفسِ مضمون مختلف ہوتا ہے۔ سوکسی لڑکی کو دوستی کی درخواست بھی بطور نمونہ پیش ہے
ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔
مودبانہ گزارش ہے کہ فدوی آپ کے حضور دوستی کے عہدے کے لئے امیدوار ہے۔ فدوی کو اس کام میں پانچ سال کا تجربہ ہے اور کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ دوست لڑکیوں کے تجربے کے سرٹیفیکیٹ بمعہ اسناد منسلک ہیں۔
العارض
۔۔۔۔۔۔۔
مورخہ ۔۔۔۔۔
درخواست لکھنا ایک قدم ہے۔ اس سے نوکری نہیں ملتی تو دوستی کیسے ملے گی۔اس کے بعد متعلقہ اسناد کی نقول لازم ہوتی ہے۔ دو پاسپورٹ سائز کی تصاویر(کونسلرسے تصدیق شدہ)، چال چلن کا سرٹیفیکیٹ متعلقہ تھانے سے تصدیق شدہ مع شناختی کارڈ کی نقل کے بھیج دیں۔ ہم وطن والوں کے لئے یہ اسناد کافی ہیں۔ بیرون ملک سے دوستی کے خواہشمند افراد کو اپنے پاسپورٹ کی نقل، ویزہ کی نقل اور عدم دھوکہ دہی اور عدم جنسی تفریق کا حلف نامہ (اوتھ کمشنر یا جج درجہ اول سے تصدیق شدہ) اور پولیو کے قطروں کی ویکسینیشن بھی لگانی ہوں گی۔ اگر حلف نامے کے ساتھ پولی گرافک ٹیسٹ کی رپورٹ بھی لگی ہوئی تو امید واثق ہے کہ آپ کو انٹر ویو کے لئے طلب کر لیا جائے گا۔ انٹرویو میں آپ سے کچھ بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں آپ سرخرو ہو گئے تو ایک ہفتے کے لئے دوستی آپ کی۔ اس میں مزید اضافہ آپ کی کارکردگی دیکھ کر کیا جائے گا۔
اب ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستی کی درخواست کیجیے اور تاخیر سے گریز کیجیے۔ حالات جیسے جا رہے ہیں ، بعید از قیاس نہیں کہ جلد ان دستاویزات کے علاوہ این ٹی ایس پاس کرنا اور شادی شدہ افراد کے لئے بیگمات کی رضامندی کا فارم لگانا بھی ضروری ہو جائے۔
اقبال مشعلِ راہ ہے
علامہ اقبال کا شمار پاکستان کے بڑے رہنمائوں میں ہوتا ہے اور ان کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنھیں ان کی زندگی میں بھی پذیرائی ملی اور بعد از مرگ بھی ان کا مقام اور مرتبہ برقرار ہے۔قوم انھیں شاعرِ مشرق اور قومی شاعر قرار دیتی ہے۔ ایران والے انھیں فارسی کا سب کا بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان سے زیادہ وہ ایران میں مقبول ہیں کہ ان کا فارسی کلام اردو سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے علماء جو ان کو ‘شکوہ’ لکھنے پر کافر قرار دیتے تھے، آج انھی کی اولادیں اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کے اشعار بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔
اقبال کی شاعری اور فلفے پر بہت لکھا گیا ہے بلکہ ان کے کام پر تحقیق کر کے لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیتے ہیں اور اقبال یقیناً اس کے مستحق ہیں۔تاہم شاعر اور مفکر کے علاوہ ان کی عام زندگی بھی بہت اہم ہے۔اقبال کی حیات میں ہمارے لئےکئی سبق ہیں اور کسی بھی عظیم شخصیت کا دن منانے کا مقصد محض شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی خوبیاں اپنانے کی کوشش کرنا بھی ہوتا ہے۔ اقبال کی زندگی سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ عظمت اور مرتبہ بڑے خاندان اور دولت سے نہیں ملتا۔اقبال کا خاندان بھی ہم جیسے بہت سے لوگوں جیسا متوسط خاندان تھا۔ شریف النفس اور سفید پوش والدین۔والدین نے انھیں تعلیم دلوائی۔ یہ بات آج عام معلوم ہو گی مگر تصور کیجیے کہ ایک سو پینتیس سال پہلے تعلیم اور وہ بھی انگریزی یا فرنگی تعلیم دلوانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
سکول میں بھیجا والدین نے ہی ہو گا مگر والدین کے فیصلے کو درست ثابت ڈاکٹر صاحب نے خود کیا۔ اپنا دل تعلیم میں ایسے لگایا جیسے آج کل کے نوجوان عاشق صنفِ مخالف میں لگاتے ہیں۔ پاکستان بننے تک ہمارے علاقوں میں میٹرک اعلٰی تعلیم کہلاتی تھی اور اس ڈگری کے حامل افراد کو سترویں اٹھارویں گریڈ تک جاتے تو ہم نے 1980 کی دہائی میں بھی دیکھا ہے۔ پوری صدی قبل ایک لڑکے کا اپنے علاقے مین ایم اے کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایم اے کے بعد انھوں نے لیکچر شپ شروع کر دی تھی اوروہ چاہتے تو اسی نوکری پر باعزت زندگی گزار سکتے تھے مگر علم کے عاشق کو یہ گوارا نہیں تھا۔ علم کی پیاس انھیں یورپ لے گئی اور وہاں سے انھوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ بھی کرلی۔ڈاکٹریٹ کوئی معمولی بات نہیں۔ ہم طالب علم ہیں تو اندازہ ہو تہا ہے کہ ابھی اتنا مشکل ہے تو ایک صدی قبل جب نہ آج کی مانند ذرائع آمد و رفت اور نہ موجودہ دور کی انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی تو تب ڈاکٹریٹ کرنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہو گا۔ ۔ ایک صدی بعد بھی ہم لوگ ڈگری کے اس معیار پر نہیں پہنچے۔یورپ میں رہ کر کے طرزِ زندگی اورمادی ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
اقبال محض ڈگری یافتہ نہ تھے۔وہ حقیقی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لئے شاعر کو ذریعہ اظہار بنایا۔ شاعری کی اس معراج پر جا پہنچے کہ جہاں صرف میر اور غالب ہی براجمان تھے۔ اپنی شاعری سے انھوں نے قوم کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کمال ہی کر دیا۔ان کے اکثر اشعار قرآن و حدیث کی تشریح ہیں اور بعض اشعار اتنے جامع کہ ان پر پورے پورے مضامین لکھ لئے گئے مگر ان کا حق ادا نہیں ہوا۔ان کے اشعار اور تحاریر سے ان کی وسعتِ علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ فلسفہ میں تو ڈاکٹر تھے ہی مگر تاریخ پر ان کی گرفت کا اندازہ ‘شکوہ ‘ اور مسجدِ قرطبہ جیسی نظموں کے اشعار سے بخوبی ہوتا ہے اور اسلامی دنیا کے مسائل کا حل بھی ‘جوابِ شکوہ’ میں انھوں نے پیش کر دیا ہے۔ حالات ، حاضرہ پر بھی گہری نظر تھی- گوئٹے اور اپنے دور کے دیگر معروف شخصیات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی تھے۔حالاتِ حاضرہ پر ان کے عبور کی بہترین مثال ان کا مسلم لیگ کا صدر ہونا اور پھر ‘ تصورِ پاکستان’ پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کو مسلمانوں کی قیادت جاری رکھنے پر قائل کرنا بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔سو علامہ کے خطاب کے بھی وہ مستحق تھے۔
اقبال احسان فراموش اور محسن کش نہ تھے۔ جب انگریز حکومت نے انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ‘سر’ کے اعزاز کی پیشکش کی تو اقبال علامہ اقبال کو اپنے استاد یاد آ گئے کہ جن کی بدولت وہ اس مقام پر پہنچے۔ اعزاز کی وصولی کے لئے اپنے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دینے کی شرط عائد کر دی۔
اقبال نے دورِ جدید کے مسلمان کا تصور دیا کہ مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان کو شاہین سمجھتے تھے اور اسے خودی کا درس دیتے تھے۔اسے مایوسی اور ناامیدی سے نکالتے تھے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ دورِ جدید کے مسلمان کی عملی تفسیر تھے۔ انھوں نے یورپ کی سیر کی اوراسے قریب سےدیکھا مگر اس کی چکاچوند سے متاثر نہ ہوئے۔اسلام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہماری اکثریت جب یورپ جاتی ہے تو پہلی ضرب اس کے دین پر پڑتی ہے۔ جبکہ اقبال یورپ گئے تو اس کی خامیوں کو مسلمانوں پر اجاگر کیا۔ قناعت پسندی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ بطور وکیل مہینے میں ایک ہی کیس لیتے تھے تا کہ گھر کا نان نفقہ چلتا رہے۔روادار اور مذہبی آزادی کے قائل تھے۔ بچوں کی گرنس ایک غیر مسلم خاتونتھی مگر انھوں نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی بنیاد میں موجودہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے۔اس کے علاوہ بھی تحریکِ ازادی میں ان علاقوں کے رہنمائوں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا تاہم حیرت انگیز طور پرتحریکِ پاکستان کے سرخیل یعنی کہ پاکستان کا تصور دینے والے اور پاکستان بنانے والی دونوں شخصیات کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو پاکستان میں شامل ہوئے۔ اقبال قیامِ پاکستان سے قریب ایک عشرہ قبل ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر جب تک پاکستان ہے اور اردو زبان ہے اقبال امر ہے۔
اقبال کی شاعری اور فلفے پر بہت لکھا گیا ہے بلکہ ان کے کام پر تحقیق کر کے لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیتے ہیں اور اقبال یقیناً اس کے مستحق ہیں۔تاہم شاعر اور مفکر کے علاوہ ان کی عام زندگی بھی بہت اہم ہے۔اقبال کی حیات میں ہمارے لئےکئی سبق ہیں اور کسی بھی عظیم شخصیت کا دن منانے کا مقصد محض شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی خوبیاں اپنانے کی کوشش کرنا بھی ہوتا ہے۔ اقبال کی زندگی سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ عظمت اور مرتبہ بڑے خاندان اور دولت سے نہیں ملتا۔اقبال کا خاندان بھی ہم جیسے بہت سے لوگوں جیسا متوسط خاندان تھا۔ شریف النفس اور سفید پوش والدین۔والدین نے انھیں تعلیم دلوائی۔ یہ بات آج عام معلوم ہو گی مگر تصور کیجیے کہ ایک سو پینتیس سال پہلے تعلیم اور وہ بھی انگریزی یا فرنگی تعلیم دلوانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
اقبال محض ڈگری یافتہ نہ تھے۔وہ حقیقی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لئے شاعر کو ذریعہ اظہار بنایا۔ شاعری کی اس معراج پر جا پہنچے کہ جہاں صرف میر اور غالب ہی براجمان تھے۔ اپنی شاعری سے انھوں نے قوم کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کمال ہی کر دیا۔ان کے اکثر اشعار قرآن و حدیث کی تشریح ہیں اور بعض اشعار اتنے جامع کہ ان پر پورے پورے مضامین لکھ لئے گئے مگر ان کا حق ادا نہیں ہوا۔ان کے اشعار اور تحاریر سے ان کی وسعتِ علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ فلسفہ میں تو ڈاکٹر تھے ہی مگر تاریخ پر ان کی گرفت کا اندازہ ‘شکوہ ‘ اور مسجدِ قرطبہ جیسی نظموں کے اشعار سے بخوبی ہوتا ہے اور اسلامی دنیا کے مسائل کا حل بھی ‘جوابِ شکوہ’ میں انھوں نے پیش کر دیا ہے۔ حالات ، حاضرہ پر بھی گہری نظر تھی- گوئٹے اور اپنے دور کے دیگر معروف شخصیات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی تھے۔حالاتِ حاضرہ پر ان کے عبور کی بہترین مثال ان کا مسلم لیگ کا صدر ہونا اور پھر ‘ تصورِ پاکستان’ پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کو مسلمانوں کی قیادت جاری رکھنے پر قائل کرنا بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔سو علامہ کے خطاب کے بھی وہ مستحق تھے۔
اقبال نے دورِ جدید کے مسلمان کا تصور دیا کہ مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان کو شاہین سمجھتے تھے اور اسے خودی کا درس دیتے تھے۔اسے مایوسی اور ناامیدی سے نکالتے تھے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ دورِ جدید کے مسلمان کی عملی تفسیر تھے۔ انھوں نے یورپ کی سیر کی اوراسے قریب سےدیکھا مگر اس کی چکاچوند سے متاثر نہ ہوئے۔اسلام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہماری اکثریت جب یورپ جاتی ہے تو پہلی ضرب اس کے دین پر پڑتی ہے۔ جبکہ اقبال یورپ گئے تو اس کی خامیوں کو مسلمانوں پر اجاگر کیا۔ قناعت پسندی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ بطور وکیل مہینے میں ایک ہی کیس لیتے تھے تا کہ گھر کا نان نفقہ چلتا رہے۔روادار اور مذہبی آزادی کے قائل تھے۔ بچوں کی گرنس ایک غیر مسلم خاتونتھی مگر انھوں نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی بنیاد میں موجودہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے۔اس کے علاوہ بھی تحریکِ ازادی میں ان علاقوں کے رہنمائوں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا تاہم حیرت انگیز طور پرتحریکِ پاکستان کے سرخیل یعنی کہ پاکستان کا تصور دینے والے اور پاکستان بنانے والی دونوں شخصیات کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو پاکستان میں شامل ہوئے۔ اقبال قیامِ پاکستان سے قریب ایک عشرہ قبل ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر جب تک پاکستان ہے اور اردو زبان ہے اقبال امر ہے۔
کم عمری میں شادی کے مضمرات
آج کل فیس بک پرکچھ ایسی پوسٹس آ رہی ہیں کہ جن میں بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں بچوں کی شادی جلدی اور چھوٹی عمر میں کر دینی چاہیے۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارےہاں شادی مشکل ہے۔ جہیزاور دیگر غیر اسلامی و غیر ضروری رسموں نے اس کو مشکل تر کر دیا ہے۔ اس کے برعکس غیر ازدواجی تعلقات قائم رکھنا کہیں آسان ہے۔ گویاکہ ہم لوگ خود ہی گناہ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ہمیں یقیناً اس طرزِعمل کو تبدیل کرنا پڑے گا اگر ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تا ہم جلد اور کم عمری میں شادی اس کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل میں اضافہ ہو گا۔
اس کے حق میں دلیل دینے والے آپﷺ کی حضرت عائشہ سے شادی کی دلیل دیتے ہیں۔ دلیل بالکل بجا مگر یہ بھول جایا جاتا ہے کہ وہ شادی کس مقصدکے لئے ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی نجی زندگی بھی سب کے سامنے آ جائے کیونکہ وہ بھی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اور اس کے لئے ایک نوجوان لڑکی درکار تھی کہ جس کا حافظہ بہت اچھا ہو اور اس کا نتیجہ بھی سامنے کہ خواتین میں سب سےزیادہ احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہیں۔ اگر نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتا تو قریب اسی فیصد شادیاں آپﷺ نے بیوائوں سے نہ کی ہوتیں اور پہلی ہی شادی پچیس برس کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے نہ کرتے۔
وقت سے پہلے شادی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے اور کامیابی کی نسبت اس میں ناکامی کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ شادی محض جسم کی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ اسلام نے اسی لئے شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں کی بلکہ کہا کہ جب وہ شادی کے قابل ہو جائیں تو دیر نہ کرو۔ شادی کے قابل سے مطلب صرف جسمانی نہیں بلکہ دماغی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کر سکیں۔ معاشی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ اپنی اور زوجہ کی ذمہ داریاں اٹھانے میں خود کفیل ہو۔ نہ کہ گھر کے موجودہ سربراہ پر مزید بوجھ ڈال دینے کا باعث بنے۔ ہمارے آباء و اجداد میں بچوں کی شادیاں پندرہ بیس سال کی عمر میں شادی ہو جاتی تھی مگر اس میں ایک اہم بات ہم بھول رہے ہیں کہ گزرے دنوں میں اس عمر میں عموماً لڑکے لڑکیاں گھر سنبھال لیتے تھے۔ دس بارہ سال کی لڑکیاں کھانا پکانے، صفائی ستھرائی، کشیدہ کاری اور دیگر کاموں الغرض گھرداری میں ماہر ہوتی تھیں۔ جبکہ لڑکوں کو میٹرک کے بعد بآسانی نوکری مل جاتی تھی اور جو میٹرک تک نہیں پہیچ پاتے تھے وہ اپنے خاندانی کاموں مثلاً کھیتی باڑی، مویشی چرانا یا دوکان کو سنبھال لیتا تھا۔ یوں وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جاتا تھا اور مناسب سا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔
ہمارے معاشرے میں شادی محض میاں بیوی کا تعلق نہیں ہوتا یہ تو نئے خاندان سے رشتہ جوڑنا ہوتا ہے ۔اب اگر دیکھیں تو لڑکیاں تو گھر داری سیکھتی ہی بی اے ، ایم اے کرنے کے بعد ہیں۔ سولہ اٹھارہ سال کی عمر میں لڑکیاں اگر بیاہ دیں گے تو کیا وہ گھر سنبھال پائیں گی؟ انیس بیس سال کی عمر میں لڑکیاں کا بچپنا بھی ختم نہیں ہوتا۔ بصورتِ شادی کیا اس عمر میں لڑکیاں ساس سسر، نند دیوروں اور دیگر لوگوں سے انکےمقام و مرتبے کے مطابق برتائو کر پائیں گی۔ ہمارےہاں لڑائی کی وجہ اکثر میاں بیوی نہیں بلکہ ان کے خاندان ہوتے ہیں۔ سو اگر لڑکی سمجھدار نہ ہو تو گھر بننے سے زیادہ بگڑنے کا احتمال ہے۔ ۔سو لڑکوں کا بھی یہی حال ہے۔ پچیس سے تیس سال کی عمر میں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ پرانے زمانے میں یہ کام اٹھارہ بیس برس کی عمر میں بلکہ اس سے بھی پہلے ہو جاتا تھا۔ محمد بن قاسم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ سترہ برس کی عمر میں سندھ فتح کر چکے تھے۔ اب تو آرمی میں جانے کے لئے بھی ایف اے لازم اور وہ اٹھارہ سال سے پہلے خال خال ہی ہوتا ہے۔اگر لڑکوں کی شادی اس کے برسرِ روزگار ہونے سے پہلے کر دی جائے گی تو اس سے گھر کا معاشی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ نیز جو شخص دوسروں پر منحصر ہو،وہ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتا تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق کا نگہبان کیا خاک بنے گا؟ اس تناظر میں لڑکیوں کے لئےشادی کی عمر قریب بائیس سے پچیس سال اور لڑکوں کی ستائیس سے بتیس سال ہونی چاہیے۔
اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ دور میں فتنے بہت ہیں۔ بدی کے راستے بے تحاشہ اور آسان ہیں۔ٹی وی انٹرنیٹ نے بچوں کو وقت سے پہلے جوان کر دیا ہے۔ انسان کے لئے اپنے نفس پر قابو رکھنا آسان نہیں۔ اس لئے نو عمری میں بچوں کے پھسل جانے کااندیشہ بہرحال رہتا ہے اور یقیناًکچھ لڑکے/لڑکیاں راہِ راست سے بھٹک بھی جاتے ہیں۔تاہم ان کی غلطیوں کا خمیازہ ان لوگوں کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے جو بے قصورہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈرون یا خود کش حملوں کا نشانہ معصوم لوگ زیادہ بنتے ہیں۔
سڑکوں پرروزانہ ہزاروں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو کیا لوگ سڑکوں پر سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بجلی ہر سال کئی جانیں لیتی ہے تو کیا اس کا استعمال ترک کر دیا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اپنے متعلقین کو احتیاط کا کہا جاتا ہے اور ان سے بچائو کی تدابیر کو اختیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ دورمیں والدین کو بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کرنی چاہیے۔ اکثر والدین بچوں کی تربیت فرسودہ طریقوں پر کر رہے ہیں کہ جن میں کہا جاتا تھا کہ بچوں کو سونے کا نوالہ کھلائو مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ ہمارے ہاں سونے کا نوالہ کھلایا جائے یا نہ جائے مگر دوسری شرط اکثر و بیشتر پوری کر دی جاتی ہے۔ موجودہ نوجوان تین چار دہائی قبل کے نوجوان سے بہت مختلف ہے۔ وہ زیادہ متجسس اور عملی ہے۔ باتوں سے نہیں بہلتا۔ دلائل سے قائل ہوتا ہے۔ہمارے زمانے میں بچے والدین واساتذہ کے سامنے لب نہیں کھولتے تھے اگرچہ بڑے غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ ڈر جاتے تھے اور بات تسلیم کر لیتے تھے مگر آج کا نوجوان ڈرتا نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے اور ٹھوس دلائل سے ہی قائل ہوتا ہے سو تربیت کے پرانے طریقے بھی کارگر نہیں۔ اگر والدین سختی کریں گے تو اولاد فرار کے راستے ڈھونڈے گی اور اب تو فرار کے راستوں کی کوئی کمی نہیں۔ انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن کو آپ گھر سے شاید نکال لیں مگر معاشرے سے نہیں نکال سکتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گھر سے بھی نہیں نکال سکتے۔ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں سو اب اولاد سے دوستی کرنی چاہیے۔ان سے ایسا تعلق بنائیں کہ وہ اپنے والدین کو اپنا بہترین دوست سمجھیں اور ہر وہ راز و نیاز ان سے کہیں اور انھی سے مشورہ مانگیں۔ کم عمری کی شادی غلط پر مزید غلط ہے اور دو غلط مل کر کبھی ایک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
اردو کے نفاذ کی کوششیں
You must be logged in to post a comment.