Leave a comment

اقبال مشعل راہ ہے۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

iqbal mashale rah ha

Leave a comment

دوستی کی درخواست بھیجنے کا طریقہ

شرمین عبید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں  -معاشرتی ناہمواری اور تیزاب گردی کی شکار خواتین  کے واقعات پر فلمیں بنانے پر انھیں آسکر انعام بھی مل چکا ہے۔ فلمیں ہم نے کم ہی دیکھی ہیں مگر امید ہے کہ اچھی ہوں گی یا نہ بھی ہوں توایک طبقے کو وہ بہر حال پسند آئیں تبھی تو انھوں نے آسکر شرمین عبید کو دے دیا۔ جیسے پولیس کوہر شخص مشکوک نظرآتا ہے ایسے ہی شرمین  کوہرمرد ظالم اور تیزاب پھینکنے والا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ پچھلے دنوں ہوا جب ایک ڈاکٹر نے ان کی ہمشیرہ کو فیس بک پر دوستی کی درخواست کی۔ بہن نے ان کوبتایا اور انھوں نے  فوراً اسے جنسی ہراساں کرنے  کا کیس بنا کر عالم میں پیش کیا۔ اس کا پہلا شکار تو ڈاکٹر بنا۔ اس کی چھٹی ہو گئی یقیناً اسے سبق یاد ہو گا۔ اس کے گھر والوں اور اس کے بچوں کو سزا ملی درخواست بھیجنے کی کہ نوکری سے گھر چلتا ہے ہر کسی کا۔تاہم سنا ہے کہ انھیں کسی دوسرےہسپتال نے نوکری دے دی ہے۔ ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔
ہر تصویر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک۔  اس واقعے کوبھی استثنٰی نہیں۔ ہمارےہاں  لڑکیوں کی شادی کے موقع پر اکثر لوگ انھیں نصیحت کرتے ہیں کہ اب سسرال کو اپنا گھر سمجھنا ۔ ڈولی میں وہاں جا رہی ہو اور وہاں سے اب آنا تو میت کی صورت ہی آنا۔بعض لوگ ایسے اداروں میں کام کرتے ہیں کہ  جو ان سے وہی سلوک کرتے ہیں جو نوے فیصد خاندان  اپنی بہو کے ساتھ کرتے ہیں۔یعنی کہ نہ ان کو چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی ام لا استعفٰی قبول ہوتا ہے۔ وہ بعد از ریٹائرمنٹ ہی چھٹی  پاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ کچھ بھی کر لیں انھیں چھٹی  نہیں ملتی۔ خود ہمیں بھی سعودی عرب جاتے ہوئے اس کا تجربہ ہو چکا ہے جب ہمارے صاحب نے ہمیں چھٹی دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اب کسی کو چھٹی نہ مل رہی ہو یا وہ اپنی نوکری بدلنا چاہتا ہو مگر اس کا ادارہ اس کو چھوڑنہ رہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ کو دوستی کی در خواست کرے۔اللہ نے چاہا تو من کی مراد پوری ہو گی۔
شرمین عبید کیونکہ ایک بڑا نام ہے اور ان کے چاہنے اور پیروی کرنے والے بھی بہت ہیں تو یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان کی دیکھا دیکھی دوسری خواتین بھی دوستی کی درخواست کو جنسی ہراسگی کےمعنوں میں لیں ۔ انجام کار جس کو بھی پیشکش کی اس نے اس کا الٹا مطلب ہی لینا۔ چنانچہ  کوئی بھی کسی کو درخواست کرنے کا خواہش مند ہو  وہ پھر نوکری پر فاتحہ پڑھ لے۔ فیس بک میں دوستی کے علاوہ اور کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔ اب انھیں دشمنی کا اور بے پرواہ رہنے کا اختیار بھی دینا چاہیے۔
ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعی ایسے ہی بھونڈے انداز میں دوستی کی پیشکش کی ہو کہ شرمین صاحبہ کی ہمشیرہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب ہوں اور ہم خواہ مخواہ ہی ان کو الزام دیئے جا رہے ہوں۔ ڈاکٹرنے درخواست کے ساتھ پیغام میں لکھا ہو کہ میں تمھارا ڈاکٹر ہوں۔ مجھ سے دوستی کرو تو ہر بیماری کا علاج میرے ذمہ۔ دوسری صورت میں ایسا کوئی انجکشن لگائوں گا کہ ساری عمر صحت کو ترسو گی۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی پیغام کسی صورت بھی قابلِ برداشت نہیں    تاہم شرمین صاحبہ کو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کے وسائل زیادہ نہیں ہیں سو یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو مہذب انداز میں دوستی کی درخواست بھیجنا سکھائے۔ ادارے طالبعلموں کو انجنئر’ ڈاکٹر  اور فوجی تو بنا دیتے ہیں مگر بنیادی باتیں جیسے نوکری یا دوستی کی درخواست دینا نہیں سکھاتے۔ سو درخواست سے تاثرنہیں بن پاتا اوریوں ادارے اور لوگ گدڑیوں کے لعلوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوستی کی در خواستوں کا ہمیں علم نہیں کہ ہم اپنے اچھی طرح جاننے والوں کو ہی بھیجتے ہیں کہ جن کے لئے نام ہی معیار ہوتا ہے تاہم نوکری کی درخواستیں ہم نے  بے تحاشہ دی ہیں۔ جو کہ قریب قریب سب ہی مسترد ہوئی ہیں۔ ان کے مسترد ہونے سے ہی ہم عرضی لکھنے میں ماہر ہوئے ہیں بالکل ایسے جیسے اچھے استاد کے لئے ضروری نہیں کہ وہ طالب علم بھی اچھا رہا ہو۔مختلف محکموں میں عرضیاں دے دے کر ہم نے یہ سیکھا ہے کہ عرضیاں کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہیں بس نفسِ مضمون مختلف ہوتا ہے۔ سوکسی لڑکی کو دوستی کی درخواست بھی بطور نمونہ پیش ہے
محترمہ۔۔۔۔۔۔
ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔
مودبانہ گزارش ہے کہ فدوی آپ کے حضور دوستی  کے عہدے کے لئے امیدوار ہے۔ فدوی کو اس کام میں پانچ سال کا تجربہ ہے اور کسی  کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔  دوست لڑکیوں کے تجربے کے سرٹیفیکیٹ بمعہ اسناد منسلک ہیں۔
العارض
۔۔۔۔۔۔۔
مورخہ ۔۔۔۔۔
درخواست لکھنا ایک قدم ہے۔ اس سے نوکری نہیں ملتی تو دوستی کیسے ملے گی۔اس کے بعد متعلقہ اسناد کی نقول لازم ہوتی ہے۔ دو پاسپورٹ سائز کی تصاویر(کونسلرسے تصدیق شدہ)، چال چلن کا سرٹیفیکیٹ متعلقہ تھانے سے تصدیق شدہ  مع شناختی کارڈ کی نقل کے بھیج دیں۔ ہم وطن والوں کے لئے یہ اسناد کافی ہیں۔ بیرون ملک سے دوستی کے خواہشمند افراد کو اپنے پاسپورٹ کی نقل، ویزہ کی نقل  اور عدم دھوکہ دہی اور عدم جنسی تفریق کا حلف نامہ (اوتھ کمشنر یا جج درجہ اول سے تصدیق شدہ) اور پولیو کے قطروں کی ویکسینیشن بھی لگانی ہوں گی۔ اگر حلف نامے کے ساتھ پولی گرافک ٹیسٹ کی رپورٹ بھی لگی ہوئی تو امید واثق ہے کہ آپ کو انٹر ویو کے لئے طلب کر لیا جائے گا۔ انٹرویو  میں آپ سے کچھ بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں آپ سرخرو ہو گئے تو ایک ہفتے کے لئے دوستی آپ کی۔ اس میں مزید اضافہ آپ کی کارکردگی دیکھ کر کیا جائے گا۔
اب ان اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستی کی درخواست کیجیے اور تاخیر سے گریز کیجیے۔ حالات جیسے جا رہے ہیں ، بعید از قیاس نہیں کہ جلد  ان دستاویزات کے علاوہ این ٹی ایس پاس کرنا  اور شادی شدہ افراد کے لئے بیگمات کی رضامندی کا فارم لگانا بھی ضروری ہو جائے۔

Leave a comment

اقبال مشعلِ راہ ہے

علامہ اقبال کا شمار پاکستان کے بڑے رہنمائوں میں ہوتا ہے اور ان کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنھیں ان کی زندگی میں بھی پذیرائی ملی اور بعد از مرگ بھی ان کا مقام اور مرتبہ برقرار ہے۔قوم انھیں شاعرِ مشرق اور قومی شاعر قرار دیتی ہے۔ ایران والے انھیں فارسی کا سب کا بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان سے زیادہ وہ ایران میں مقبول ہیں کہ ان کا فارسی کلام اردو سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے علماء جو ان کو ‘شکوہ’ لکھنے پر کافر قرار دیتے تھے، آج انھی کی اولادیں  اپنی تقریروں میں علامہ اقبال کے اشعار بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔
اقبال کی شاعری اور فلفے پر بہت  لکھا گیا ہے بلکہ ان کے کام پر تحقیق کر کے لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیتے ہیں اور اقبال یقیناً اس کے مستحق ہیں۔تاہم شاعر اور مفکر کے علاوہ ان کی عام زندگی بھی بہت اہم ہے۔اقبال کی حیات میں ہمارے لئےکئی  سبق ہیں اور کسی بھی عظیم شخصیت کا دن منانے کا مقصد محض شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی خوبیاں اپنانے کی کوشش کرنا بھی ہوتا ہے۔  اقبال کی زندگی سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ عظمت اور مرتبہ بڑے  خاندان اور دولت سے نہیں ملتا۔اقبال کا خاندان بھی ہم جیسے بہت سے لوگوں جیسا متوسط خاندان تھا۔ شریف النفس اور سفید پوش والدین۔والدین نے انھیں تعلیم دلوائی۔ یہ بات آج عام معلوم ہو گی مگر تصور کیجیے کہ ایک سو پینتیس سال پہلے تعلیم اور وہ بھی انگریزی یا فرنگی تعلیم دلوانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
سکول میں بھیجا والدین نے ہی ہو گا مگر والدین کے فیصلے کو درست ثابت ڈاکٹر صاحب نے خود کیا۔ اپنا دل تعلیم میں ایسے لگایا جیسے آج کل کے نوجوان عاشق صنفِ مخالف میں لگاتے ہیں۔ پاکستان بننے تک ہمارے علاقوں میں میٹرک اعلٰی تعلیم کہلاتی تھی اور اس ڈگری کے حامل افراد کو سترویں اٹھارویں گریڈ تک جاتے تو ہم نے 1980 کی دہائی میں بھی دیکھا ہے۔ پوری صدی قبل ایک لڑکے کا اپنے علاقے مین ایم اے کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایم اے کے بعد انھوں نے  لیکچر شپ شروع کر دی تھی اوروہ  چاہتے تو اسی نوکری پر باعزت زندگی گزار سکتے تھے مگر علم کے عاشق کو یہ گوارا نہیں تھا۔ علم کی پیاس انھیں یورپ لے گئی اور وہاں سے انھوں نے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ بھی کرلی۔ڈاکٹریٹ کوئی معمولی بات نہیں۔  ہم طالب علم ہیں تو اندازہ ہو تہا ہے کہ ابھی اتنا مشکل ہے تو ایک صدی قبل جب نہ آج کی مانند ذرائع آمد و رفت اور نہ موجودہ دور کی انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی  تو تب ڈاکٹریٹ کرنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہو گا۔ ۔  ایک صدی بعد بھی ہم لوگ ڈگری کے اس معیار پر نہیں پہنچے۔یورپ میں رہ کر کے طرزِ زندگی اورمادی ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
اقبال محض ڈگری یافتہ نہ تھے۔وہ حقیقی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لئے شاعر کو ذریعہ اظہار بنایا۔ شاعری کی اس معراج پر جا پہنچے کہ جہاں صرف میر اور غالب ہی براجمان تھے۔ اپنی شاعری سے انھوں نے قوم کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور کمال ہی کر دیا۔ان کے اکثر اشعار قرآن و حدیث کی تشریح ہیں اور بعض اشعار اتنے جامع کہ ان پر پورے پورے مضامین لکھ لئے گئے مگر ان کا حق ادا نہیں ہوا۔ان کے اشعار اور تحاریر سے ان کی وسعتِ علم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ فلسفہ میں تو ڈاکٹر تھے ہی مگر تاریخ پر ان کی گرفت کا اندازہ ‘شکوہ ‘ اور مسجدِ قرطبہ  جیسی نظموں کے اشعار سے بخوبی ہوتا ہے اور اسلامی دنیا کے مسائل کا حل بھی ‘جوابِ شکوہ’ میں انھوں نے پیش کر دیا ہے۔  حالات ، حاضرہ پر بھی گہری نظر تھی- گوئٹے اور اپنے دور کے دیگر معروف شخصیات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان سے رابطے میں بھی تھے۔حالاتِ حاضرہ پر ان کے عبور کی بہترین مثال ان کا مسلم لیگ کا صدر ہونا اور پھر ‘ تصورِ پاکستان’ پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کو مسلمانوں کی قیادت جاری رکھنے پر قائل کرنا بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔سو علامہ کے خطاب کے بھی وہ مستحق تھے۔
اقبال احسان فراموش اور محسن کش نہ تھے۔ جب انگریز حکومت نے انھیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ‘سر’ کے اعزاز کی پیشکش کی تو اقبال علامہ اقبال کو اپنے استاد یاد آ گئے کہ جن کی بدولت وہ اس مقام پر پہنچے۔ اعزاز کی وصولی کے لئے اپنے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دینے کی شرط عائد کر دی۔
اقبال نے دورِ جدید کے مسلمان کا تصور دیا کہ مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان کو شاہین سمجھتے تھے اور اسے خودی کا درس دیتے تھے۔اسے مایوسی اور ناامیدی سے نکالتے تھے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ وہ دورِ جدید کے  مسلمان کی عملی تفسیر تھے۔ انھوں نے یورپ کی سیر کی اوراسے قریب سےدیکھا مگر  اس کی چکاچوند سے متاثر نہ ہوئے۔اسلام پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ہماری اکثریت جب یورپ جاتی ہے تو پہلی ضرب اس کے دین پر پڑتی ہے۔ جبکہ اقبال یورپ گئے تو اس کی خامیوں کو مسلمانوں پر اجاگر کیا۔ قناعت پسندی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ بطور وکیل مہینے میں ایک ہی کیس لیتے تھے تا کہ گھر کا نان نفقہ چلتا رہے۔روادار اور مذہبی آزادی کے قائل تھے۔ بچوں کی گرنس ایک غیر مسلم خاتونتھی مگر انھوں نے اسے زبردستی مسلمان کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی بنیاد میں موجودہ ہندوستان اور بنگلہ دیش  کے لاکھوں مسلمانوں کا خون ہے۔اس کے علاوہ بھی تحریکِ ازادی میں ان علاقوں کے رہنمائوں  کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا تاہم حیرت انگیز طور پرتحریکِ پاکستان کے سرخیل یعنی کہ پاکستان کا تصور دینے والے اور پاکستان بنانے والی دونوں شخصیات کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو پاکستان میں شامل ہوئے۔ اقبال قیامِ پاکستان سے قریب ایک عشرہ قبل ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر جب تک پاکستان ہے  اور اردو زبان ہے اقبال امر ہے۔

Leave a comment

تقریب رونمائی شگوفہء سحر۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

t2

taqreeb e ronumai

Leave a comment

اقبال مشعل راہ ہے۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

اقبال مشعل راہ ہے

Leave a comment

اقبال مشعل راہ ہے۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

اقبال مشعل راہ ہے

Leave a comment

دوستی کی درخواست بھیجنے کا طریقہ۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

a2

Leave a comment

کم عمری میں شادی۔۔۔اخبار میں شائع آرٹیکل

kam umre m shadi.png

Leave a comment

کم عمری میں شادی کے مضمرات


آج کل فیس بک پرکچھ ایسی پوسٹس آ رہی ہیں کہ جن میں بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں بچوں کی شادی جلدی اور چھوٹی عمر میں کر دینی چاہیے۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو معاشرہ بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط  کا شکار ہو جائے گا۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارےہاں شادی مشکل ہے۔ جہیزاور دیگر غیر اسلامی و غیر ضروری رسموں نے اس کو  مشکل تر کر دیا ہے۔ اس کے برعکس غیر ازدواجی تعلقات قائم رکھنا کہیں آسان ہے۔ گویاکہ ہم لوگ خود ہی گناہ کی  ترغیب دے رہے ہیں۔ ہمیں یقیناً اس طرزِعمل کو تبدیل کرنا پڑے گا اگر ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر دیکھنا چاہتے ہیں تا ہم جلد اور کم عمری میں شادی اس کا حل نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل میں اضافہ ہو گا۔

اس کے حق میں دلیل دینے والے آپﷺ کی حضرت عائشہ سے شادی کی دلیل دیتے ہیں۔ دلیل بالکل بجا مگر یہ بھول جایا جاتا ہے کہ وہ شادی کس مقصدکے لئے ہوئی۔  اس کا مقصد یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی نجی زندگی بھی  سب کے سامنے آ جائے کیونکہ وہ بھی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اور اس کے لئے ایک نوجوان لڑکی درکار تھی کہ جس کا حافظہ  بہت اچھا ہو اور اس کا نتیجہ بھی سامنے کہ خواتین میں سب سےزیادہ احادیث حضرت عائشہ سے مروی ہیں۔ اگر نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتا تو قریب اسی فیصد شادیاں آپﷺ نے بیوائوں سے نہ کی ہوتیں اور پہلی ہی شادی پچیس برس کی عمر میں چالیس سال کی بیوہ سے نہ کرتے۔

وقت سے پہلے شادی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے اور کامیابی کی نسبت اس میں ناکامی کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ شادی محض جسم کی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ اسلام نے اسی لئے شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں کی بلکہ کہا کہ جب وہ شادی کے قابل ہو جائیں تو دیر نہ کرو۔ شادی کے قابل سے مطلب صرف جسمانی نہیں بلکہ دماغی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کر سکیں۔ معاشی طور پر بھی وہ اس قابل ہوں کہ اپنی اور زوجہ کی ذمہ داریاں اٹھانے میں خود کفیل ہو۔ نہ کہ گھر کے موجودہ سربراہ پر مزید بوجھ ڈال دینے کا باعث بنے۔ ہمارے آباء و اجداد  میں بچوں کی شادیاں پندرہ بیس سال کی عمر میں شادی ہو جاتی تھی مگر اس میں ایک اہم بات ہم بھول رہے ہیں کہ  گزرے دنوں میں اس عمر میں عموماً لڑکے لڑکیاں گھر سنبھال لیتے تھے۔ دس بارہ سال کی لڑکیاں کھانا پکانے، صفائی ستھرائی، کشیدہ کاری اور دیگر کاموں الغرض  گھرداری میں ماہر ہوتی تھیں۔ جبکہ لڑکوں کو میٹرک کے بعد بآسانی نوکری مل جاتی  تھی اور جو میٹرک تک نہیں پہیچ پاتے تھے وہ اپنے خاندانی کاموں مثلاً کھیتی باڑی، مویشی چرانا یا دوکان کو سنبھال لیتا تھا۔ یوں وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جاتا تھا اور مناسب سا رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کر دی جاتی تھی۔

ہمارے معاشرے میں  شادی محض میاں بیوی کا تعلق نہیں ہوتا یہ تو نئے خاندان سے رشتہ جوڑنا ہوتا ہے ۔اب  اگر دیکھیں تو لڑکیاں تو گھر داری سیکھتی ہی بی اے ، ایم اے کرنے  کے بعد ہیں۔ سولہ اٹھارہ سال کی عمر میں لڑکیاں اگر بیاہ دیں گے تو کیا وہ گھر سنبھال پائیں گی؟ انیس بیس سال کی عمر میں لڑکیاں کا بچپنا بھی ختم نہیں ہوتا۔ بصورتِ شادی کیا اس عمر میں لڑکیاں ساس سسر، نند دیوروں اور دیگر  لوگوں  سے انکےمقام و مرتبے کے مطابق برتائو کر پائیں گی۔ ہمارےہاں لڑائی کی وجہ  اکثر میاں بیوی نہیں بلکہ ان کے خاندان ہوتے ہیں۔ سو اگر لڑکی سمجھدار نہ ہو تو گھر بننے سے زیادہ بگڑنے کا احتمال ہے۔ ۔سو لڑکوں کا بھی یہی حال ہے۔ پچیس سے تیس سال کی عمر میں وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ پرانے زمانے میں یہ کام اٹھارہ بیس برس کی عمر میں بلکہ اس سے بھی پہلے ہو جاتا تھا۔ محمد بن قاسم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ سترہ برس کی عمر میں سندھ فتح کر چکے تھے۔ اب تو آرمی میں جانے کے لئے بھی  ایف اے لازم اور وہ اٹھارہ سال سے پہلے خال خال ہی ہوتا ہے۔اگر لڑکوں کی شادی اس کے برسرِ روزگار ہونے سے پہلے کر دی جائے گی تو اس سے گھر کا معاشی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ نیز جو شخص دوسروں پر منحصر ہو،وہ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتا تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق کا نگہبان کیا خاک بنے گا؟ اس تناظر میں لڑکیوں کے لئےشادی کی عمر قریب بائیس سے پچیس سال اور لڑکوں کی ستائیس سے بتیس سال ہونی چاہیے۔

اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ دور میں فتنے بہت ہیں۔ بدی کے راستے بے تحاشہ اور آسان ہیں۔ٹی وی انٹرنیٹ نے بچوں کو وقت سے پہلے جوان کر دیا ہے۔ انسان کے لئے اپنے نفس پر قابو رکھنا آسان نہیں۔ اس لئے نو عمری میں بچوں کے پھسل جانے کااندیشہ بہرحال رہتا ہے اور یقیناًکچھ  لڑکے/لڑکیاں راہِ راست سے بھٹک بھی جاتے ہیں۔تاہم ان کی غلطیوں کا خمیازہ ان لوگوں کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے جو بے قصورہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈرون یا خود کش حملوں کا نشانہ معصوم لوگ زیادہ بنتے ہیں۔

سڑکوں پرروزانہ ہزاروں ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو کیا لوگ سڑکوں پر سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔بجلی ہر سال کئی جانیں لیتی ہے تو کیا اس کا استعمال ترک کر دیا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اپنے متعلقین کو احتیاط کا کہا جاتا ہے اور ان سے بچائو کی تدابیر کو اختیار کیا جاتا ہے۔ موجودہ دورمیں والدین  کو بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کرنی چاہیے۔ اکثر والدین بچوں کی تربیت فرسودہ طریقوں پر کر رہے ہیں کہ جن میں کہا جاتا تھا کہ بچوں کو سونے کا نوالہ کھلائو مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ ہمارے ہاں سونے کا نوالہ کھلایا جائے یا نہ جائے مگر دوسری شرط اکثر و بیشتر پوری کر دی جاتی ہے۔ موجودہ نوجوان تین چار دہائی قبل کے نوجوان سے بہت مختلف ہے۔ وہ زیادہ متجسس اور عملی ہے۔ باتوں سے نہیں بہلتا۔ دلائل سے قائل ہوتا ہے۔ہمارے زمانے میں بچے والدین واساتذہ کے سامنے لب نہیں کھولتے تھے اگرچہ بڑے غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ ڈر جاتے تھے اور بات تسلیم کر لیتے تھے مگر آج  کا نوجوان ڈرتا نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے اور ٹھوس دلائل سے ہی قائل ہوتا ہے سو تربیت کے پرانے طریقے بھی کارگر نہیں۔ اگر والدین سختی کریں گے تو اولاد فرار کے راستے ڈھونڈے گی اور اب تو فرار کے راستوں کی کوئی کمی نہیں۔   انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن کو آپ گھر سے شاید نکال لیں مگر معاشرے سے نہیں نکال سکتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گھر سے بھی نہیں نکال سکتے۔ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں سو اب اولاد سے دوستی کرنی چاہیے۔ان سے ایسا تعلق بنائیں کہ وہ اپنے والدین کو اپنا بہترین دوست سمجھیں اور ہر وہ راز و نیاز ان سے کہیں اور انھی سے مشورہ مانگیں۔ کم عمری کی شادی غلط پر مزید غلط ہے اور دو غلط مل کر کبھی ایک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔

 

Leave a comment

اردو کے نفاذ کی کوششیں

 

ہمارے دوست محمد پرویز بونیری پٹھان ہیں مگر ان کی اردو سن کر کوئی بھی انھیں پٹھان ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔تذکیر و تانیث کی غلطیوں سے پاک اورعمدہ الفاظ کا چنائو ان کے خاص اوصاف ہیں۔اردو کے قدر دان اور خیر خواہ ہیں اور اس کی ترویج و ترقی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک فیس بک صفحہ’کاروان اردو زبان’کے نام  سے بنا رکھا ہے۔ کاروان اردو زبان اردو کے نفاذکے حوالے سے عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کے دو سال مکمل ہونے پر 8 ستمبر کو ‘یومِ قومی زبان’ منا رہی ہے۔ اردو زبان سے ہماری وابستگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم کالم اردو زبان میں ہی لکھتے ہیں۔

اردو ہماری قومی زبان ہے تاہم اسے کبھی قومی زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ کئی بار سرکاری سطح پر اردوکو دفتری و سرکاری زبان بنانے کی قراد دادیں منظور ہوئیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خواص تو کیا عوام بھی اردو بولنے سے کتراتے ہیں بلکہ انگریزی ہمارے اندر ایسے رچ بس گئی ہے کہ ہم ہر جملے میں نادانستہ کئی الفاظ انگریزی کے بول جاتے ہیں اور انگریزی میں ہی خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں۔

مقتدرہ قومی زبان مختلف الفاظ کے اردو تراجم کرتا ہے مگر وہ اتنے مشکل اور ادق ہوتے ہیں کہ عام لوگ انھیں استعمال کرنے کی بجائے انگریزی کے الفاظ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے جامعہ اردو اسلام آباد میں گزارے دن یاد آ رہے ہیں کہ وہاں دفتری زبان اردو تھی۔ہمیں جب وہاں تقرری کا حکم نامہ ملا تو وہ ہم کھول کے بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ ہمیں نوکری ملی ہے یا ایک اور جامعہ نے بے آبرو کر کے پروانہء رخصت تھما دیا ہے۔ آپ بھی تقرر نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ اوپر جامعہ کا مونوگرامہے۔ اس کے نیچے دائیں ہاتھ پر تاریخ اور بائیں ہاتھ حوالہ نمبر ہے۔ اس کے نیچے ذرا واضح کر کے دفتری اعلامیہ لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد درج ذیل عبارت ہے۔ حاشیے میں الفاظ کے معنی ہم نے تحریر کیے ہیں تا کہ عبارت سمجھنے میں آسانی ہو۔

جناب ۔۔۔۔۔۔۔ کا تقرر بحیثیت لیکچرار( ٹیلی کام) بی پی ایس 17 میں کر دیا گیا ہے۔موصوف نے سول سرجن کی طرف سے جاری کردہ طبی موزونیت کا صداقت نامہ( میڈیکل سرٹیفیکیٹ) پیش کر دیا ہے۔

لہذا موصوف کو مورخہ ۔۔۔۔۔۔ سے رجوع بکار ( کام میں شامل ہونے )کی اجازت دی جاتی ہے۔

نقل برائے اطلاع

ذاتی معتمد(پرسنل سیکرٹری) شیخ الجامعہ

ناظم حسابات(  اکاءونٹس آفیسر) اسلام آباد

افسر تنقیح(آڈٹ آفیسر)

شخصی مسل(ذاتی فائل)

ایمانداری سے بتائیں کہ اردو میں ایم اے کرنے والا بھی ان میں سے کتنے الفاظ سے واقف ہو گا کجا کہ ہم جیسا انجنیر کہ جن کی اردو اور انگریزی دونوں ہی واجبی ہوتی ہیں اور انھیں صرف تکنیکی اصطلاحات ہی سمجھ آتی ہیں۔ ہمیں جامعہ اردومیں جس شعبے میں بھیجا گیا وہاں فاصلاتی مواصلات کی تختی لگی تھی جس کے معنی ٹیلی کام ہیں۔ جامعہ میں ڈھائی سال کے دوران کئی بار اردو کے نفاذکے لئے خطوط آئےاور ظاہر ہے کہ  نوکر کی تے نخرہ کی۔ انتظامی امور والوں کو خطوط آتے اور وہ تمام شعبوں کے حوالے کر کے بری الذمہ ہو جاتے۔ہم بھی پڑھ کے رکھ دیتے اور لیکچر انگریزی میں ہی دیتے کہ ہر اصطلاح نہ تو اردو میں ہے اور  اگر ہے ت وہمیں معلوم نہیں، معلوم ہوتی بھی تو طلباء تو یقیناً ناقواقف تھے تو اردو میں بتانے کا فائدہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اگر تھرمامیٹرکو آلہ حرارت پیما کہہ دیتے تو پوری کلاس کبھی ہمارا   منہ دیکھتی اور کبھی ایک دوسرے کا۔ لڑکے ایک دوسرے سے اس کا مطلب پوچھنے کے بہانے راز و نیاز شروع کر دیتے اور کلاس کو دوبارہ ڈھب پر لانا مشکل ہو جاتا سو ہم نے اردو سے محبت کے باوجود  لیکچر ہمیشہ انگریزی میں ہی دیا۔

تمام جامعات میں کچھ اساتذہ ہوتے ہیں جو کہ جامعہ کے ملازم نہیں ہوتے۔ تاہم جامعہ ان کی خدمات کسی مخصوص مضمون کے لئے حاصل کرتی ہے اور اس کی انھیں اجرت دی جاتی ہے۔ انھیں عرفِ عام میں وزیٹنگ ٹیچرز کہا جاتا ہے۔جامعہ اردومیں ہمارے دور میں ہی ان کی اجرتوں کے لئے کچھ کام ہوا کہ ان اساتذہ کی اجرت قرب و جوار کی جامعات میں دی جانے والی اجرت سے کم تھی۔انتظامیہ متفق ہوئی اور ان کی نئی اجرتوں کا اعلامیہ جاری ہوا۔وہ اعلامیہ اردو میں تھا۔ وہ  جس نے پڑھا وہ ہنس ہنس کر دوھرا ہو گیا کیونکہ  اعلامیے میں وزیٹنگ ٹیچرز کو ‘گشتی اساتذہ’ لکھا گیا تھا۔اس عزت افزائی پر اکثر اساتذہ تو جامعہ ہی چھوڑ گئے۔

ایسا صرف جامعات میں ہی نہیں ہوتا۔باقی ادارے بھی اس سے مبرا نہیں۔ سرکارتو حکم دے دیتی ہے لیکن محکموں کے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک بار سرکار نے اردو میں تختیاں لگانے کا حکم دیا۔ کسی محکمے میں جب سب کی تختیاں لگ گئیں تو ایک بوائلرانجنئر اپنا استعفٰی لے کر اپنے باس کے پاس گیا کہ یا تو میری تختی ہٹا دیں یا میرا استعفٰی قبول کر لیں کیونکہ اس کی تختی پر لکھا تھا ‘ مہندس دیگی’۔ بڑی مشکل سے تختی ہٹانے پر وہ مانا۔

چند روز قبل کی بات ہے کہ پنجاب میں نئے اساتذہ کی تربیت جاری تھی۔ انھیں اردو مین چارٹ بنانے کا کہا گیا اور اس کا موضوع تھا ‘آفیشل کمیونیکیشن’۔ اساتذہ کے ہاتھوں کے طوطے تو کیا کبوتر چڑیاں سب ہی پھر کر کے اڑ گئے کہ وہ ایک بھی نقطہ اردو مین بیان نہ کر پائے۔آخرکار نگران سے اجازت لے کر پورا چارٹ انگریزی میں بنایا۔

یہ غیر سرکاری اور عوام کی صورت حال ہے۔ محض قراردادیں پاس کرنے سے نفاذ نہیں ہو جاتا۔  لوگوں کو بتدریج اس تبدیلی کے لئے تیار کیا جائے۔

۔فوری طور پر تو اردوکا نفاذ دیوانے کا خواب ہی ہےتاہم کچھ اقدامات کیے جائیں تو اردو جلد ہی اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے گی۔ مقتدرہ قومی زبان کو ایسے الفاظ رائج کرنے چاہییں جو چھوٹے ہوں اور بولنے میں سادہ ہوں۔ اس کے علاوہ معزز عہدوں کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سےگریز کیا جائے کہ جن میں منفی معنی پوشیدہ ہوں۔ ایسے الفاظ کی ترویج کے لئے میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ میڈیا ایک طاقتور آلہ ہے نئے خیالات کی ترویج کا۔  پچھلے چند سال میں میڈیا نے کیسے داڑھی والوں کو دہشت گرد  اور مسلمان ممالک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ثابت کیا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسی میڈیا سے ہمیں اردو کی ترویج  کا کام لینا چاہیے۔سکولوں میں اردو کو عام کیا جائے۔ معاشرتی علوم اور اسلامیات اردو  میں ہی ہونی چاہیں۔  اردوکے الفاظ کو عام کریا جائےاور ان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔  شعراء اور مصنفین کو اردو زبان کے الفاظ کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔میڈیا پر بھی اردو کو رائج کیا جائے۔  پروگراموں کے میزبانوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اردو کے الفاظ استعمال کریں ورنہ ان کے پروگرام کی ریٹنگ کم کر دی جائے۔  ایسے کچھ اقدامات سے ہی اردو کا نفاذممکن ہے ورنہ پرویز جیسے لوگ انفرادی سطح پر کوشش کرتے رہیں گے جس سے اردو زندہ تو رہے گی مگر ایسے ہی جیسے کوئی مریض وینڑی لیٹر پر ہوتا ہے، بڑھے اور پھلے پھولے گی نہیں۔

 

 

Leave a comment

تقریبِ رونمائی ‘شگوفہء سحر’

taqreeberunumai26 اگست 2017 بروز ہفتہ راولپنڈی آرٹس کونسل میں ‘ حرف اکیڈمی’ کے زیرِ اہمتام راقم کی کتاب ‘شگوفہء سحر’ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ ہمارے دوست تنزیل نیازی کے بقول یہ تقریبِ رونمائی نہیں بلکہ منہ دکھائی تھی تا کہ راقم ادبی حلقوں میں اجنبی نہ رہے۔ کتاب تو جنوری میں ہی شائع ہو گئی تھی مگر ہم چونکہ پاکستان میں نہیں تھے تو تقریب کا انعقاد ملتوی ہو گیا۔ جب پاکستان آئے تو رمضان تھا سو معاملہ مزید  تاخیر کا شکار ہوا۔

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیربھی تھا

تقریب کے انعقاد کا ارادہ ابتدا میں لاہور میں تھا مگر حالات کچھ ایسے بنے کہ لاہور میں کرنا تو کجا ہمیں اس کاانعقاد ہی خطرے میں محسوس ہوا اور ہم نے اس پر فاتحہ پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ایسے میں ابن نیاز کو حرف اکادمی کا خیال آیا اور عرفان خانی سے بات چیت کا کہا۔ ابن نیاز کی ملاقات  معروف مصنفہ ‘میمونہ صدف’ کی کتاب پلک بسیرا کی تقریب میں عرفان خانی سے ملاقات ہو چکی تھی۔ عرفان خانی بہت اچھے شاعر اور انسان ہیں۔جلدہی ہم گھل مل گئے اور انھیں اپنی مجبوری بتائی تو انھوں نے 26 اگست کو تقریب کا وعدہ کر لیا۔ہمیں امید تو نہیں تھی کہ وعدہ ایفا ہو گا مگر حرف اکادمی کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔

تقریب کا وقت شام پانچ بجے تھا مگر ہم سوا پانچ یا اس کے بعد پہنچے۔ ایک وجہ تو ہمارے دوست اور کتاب کے پبلشر سمیع اللہ صاحب تھے۔ وہ عین ٹائم پرشہر میں آئے اور انھیں تقریب کے مقام کا علم نہ تھا۔انھوں نے ہم سے معلوم کیا تو ہم نے انھیں اپنے ہاں ہی بلوا لیا کہ ہمارے ساتھ ہی جائیں وہاں۔ سو ان کے آمد اور کچھ آرام میں وقت صرف ہو گیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم وقت پر پہنچ کر یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ ہم تقریب اور صاحبِ محفل بننے کے لئے بے قرارہیں۔ دوسروں کی تقاریب پر ہمیشہ ہم وقت پر پہنچے اور منہ کی کھائی۔ اپنی تقریب میں کچھ تو اس کا بھی حساب چکتا کرنا تھا۔

تقریب شروع ہوئی تو عرفان خانی نے میزبانی کے فرائض سنبھال لئے ۔ ہمارے لئے  عرفان صاحب خانی سے زیادہ ‘چھیڑخانی’ ثابت ہوئے کہ حاضرین کو ہمارے نجی واقعات بھی بتاتے رہے جو چند ملاقاتوں اور ہماری کتاب سے انھوں نے اخذ کیے۔۔اپنے تعارف میں انھوں نے راقم کو تقریب کا دولہا قرار دیا۔ یہ جو وہ بار بار سر پر ہاتھ پھیرتے تھے اس کی وجہ ہی یہی تھی کہ ہم ان سے تقریب کی دلہن سے ملاقات کا تقاضا کر رہے تھے ورنہ ایسی بھی گرمی نہیں تھی وہاں۔ ہم پینٹ کوٹ میں وہاں بیٹھ سکتے تھے تو وہ شلوار قمیص میں کیوں نہیں۔ ہم دلہن کا کہتے کہ دولہا کو بولنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ دل ہی دل میں وہ  دعا کر رہے تھے کہ ہماری گھر والے جلدی آئین اور جوں ہی وہ ہال میں داخل ہوئے انھون نے ہمیں اسٹیج پر بلا لیا۔ہم جو دلہن کا تقاضا کرنے کاارادہ کیے بیٹھے تھے، بیگم کو دیکھ کر ‘دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے’ پڑھ کر رہ گئے۔۔۔۔خانی کو دوچار ہم دل ہی دل میں کہہ گئے’۔ کتاب اور مزاح کے متعلق تھوڑی سی بات کی۔ اس کے بعد حاظرین اور حرف اکادمی کا شکریہ ادا کر کے اپنی کرسی کی راہ لی۔

ہمارے دوستوں نے ، ہمارےمتعلق بولنے سے گریزکیا۔شہبازاکبر الفت نے آنے کا وعدہ کیا مگر فرائض منصبی آڑے آ گئے۔، احتشام شامی نے تو مضمون بھی لکھ لیا تھا مگر عین وقت پر ان کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ ابن نیاز نے تو پہلے ہی پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ آر ایس مصطفٰے اور نعیم احمد بھی نہیں آ پائے۔ پرویز نے بھی حامی بھر لی تھی مگر عین موقع پر جھنڈی دکھا دی۔ ایم اے تبسم کو دیکھ کر ہمیں حیرت بھری خوشی ہوئی کہ ہمیں ان کی آمد کی توقع ہی نہیں تھی۔ان سے کہا کہ اسٹیج کو رونق بخشیں تو انھوں نے بھی معذرت کر لی۔  ان میں سے کسی ایک نے بھی ہمارے حق میں بولنے کی کوشش نہیں کی کہ سب ہی ہمیں اچھے سے جانتے ہیں۔سو کسی کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ہمارے متعلق تھوڑا جھوٹ بول لے۔ ہمیں اس کا اندازہ تھا سو پہلے ہی عرفان خانی سے کہہ رکھا تھا کہ ہمیں تعریف کی حاجت نہیں۔ ہم چایتے ہیں کہ کتاب پر تبصرہ بےلاگ ہو سو ایسے مہمانوں کو بولنے کا کہنا ہے جو ہمیں جانتے نہ ہوں ۔ہم اپنے معزز تبصرہ نگاروں کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جنھوں نےہمارے اور کتاب کے متعلق وہ کچھ کہا کہ جس سے ہم بھی آگاہ نہیں تھے۔ بالخصوص نسیم سحر صاحب کے خطاب اور انداز بیاں  نے تو محفل ہی لوٹ لی۔

اسی تقریب کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں جعلی فیس بک آئی ڈیز کی تعداد کتنی زیادہ ہے۔ جب ہم نے اپنی تقریب کا اشتہار اپنے اور دوستوں کی ٹائم لائن پر لگایا تھا تو بقول تنزیل کے  حامی بھرنے والوں  کی اکثریت  خواتین کی تھی۔ مگرتقریب میں انھیں اصلی  حالت میں ہی آنا تھا۔ کسی تقریب میں خواتین نہ ہوں تو وہ تقریب تقریب نہیں لگتی جے آئی ٹی محسوس ہوتی ہے۔ ہماری تقریب بھی اللہ کے کرم اور خواتین کی آمد سے رنگین تھی۔تقریب سے پہلے خواتین اور لڑکیوں کی تعداد چار یا پانچ تھی۔ ہماری ہمشیرہ، والدہ اور بیگم ان کے علاوہ تھیں۔ ایک دو لڑکیاں تو سکندرِ اعظم سے متاثر تھیں کہ عین تقریب میں اٹھ کر چلی گئیں۔ وہ آئی اس نے دیکھا اور ہو چلی گئی کی عملی تصویر۔ تقریب کو بھی ہماری کلاس سمجھ بیٹھیں۔

تقریب کے بعد ہمارے دوست سمیع اللہ ایک  کام سے گئے تو اپنا بیگ ہمیں پکڑا گئے کہ ذرا دھیان رکھنا۔ وہ ہم نے اپنے کندھے پر لٹکا لیا۔ ہم ساتھ ساتھ احباب کو آٹوگراف سے نواز رہے تھے۔ ہماری ہمشیرہ نے دیکھا کہ مشکل ہو رہی ہے تو انھوں نے وہ بیگ ہم سے لے لیاکیونکہ وہ سمجھیں کہ بیگ ہمارا ہے۔اب سمیع اللہ واپس آئے اور ہم سے بیگ کا پوچھا تو ہم نے اپنی ہمشیرہ سے لے کر دے دیا۔ہمشیرہ نے بیگ دے تو دیا مگر وہ سمجھیں کہ ہمنے کوئی چیز نکال کر دینی ہے سمیع اللہ کو۔ سو جب سمیع اللہ صاحب بیگ رکھتے ہماری ہمشیرہ ہمارا بیگ سمجھ کر اٹھا لیتیں اور سمیع صاحب دیکھتے ہی رہ جاتے۔ جب یہ چارپانچ بارہو چکا تو ہم نے اپنی بہن کو سمجھایا کہ بیگ انھی کا ہے ہم نے کچھ دیر کے لئے اسے اپنے پاس رکھا تو سمیع اللہ کو مال مسروقہ واپس ملا۔

ابن نیاز کا تقریب میں آنے کا ارادہ نہ تھا کہ وہ چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقے میں تھا۔ ہمارے پرزور اصرار پر بڑی مشکل سے شامل ہوا اور جونہی تقریب سے نکلا موٹر سائیکل سواروں نے اس کا موبائل چھین لیا۔ اس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے حق میں نہ بولنے کا نتیجہ ہے۔ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو مگر ایک اطمینان ضرور ہے کہ ہماری کتاب کی تقریب کل یادِ ماضی بن کر لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے گی تو بھی ابن نیاز یہ دن کبھی بھلا نہ پائے گا۔

Leave a comment

چیمپئنز ٹرافی ایک یادگار فتح

championstrophyرواں برس مئی کے وسط سے لے کر جون کے ابتدائی دو عشرے یعنی کہ پانچ ہفتے پاکستان کرکٹ کے لئے بےحد شاندار رہے۔مئی کے وسط میں پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کو اس کے گھر میں ٹیسٹ سیریز میں زیر کیا اور یہ ایک شاندار جیت کے ساتھ ہی مصباح الحق اور یونس خان کا کیریئر اختتام پذیر ہوا۔تاہم یہ کامیابی اتنی غہر متوقع نہیں تھی کہ پاکستان بہرحال ویسٹ انڈیز سے بہتر ٹیم ہے۔

ٹیم کی اگلی مہم چیمپئز ٹرافی تھی اوریہ ایک مشکل امتحان تھا۔پاکستان ٹیم کی ایک روزہ میچوں میں ماضی قریب میں پاکستان کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی ٹیم چیمپئز ٹرافی میں شریک آٹھ ٹیموں میں آٹھویں یعنی کہ آخری پوزیشن پر براجمان تھی۔ اس حالت میں پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنا ہی شائقین کومطمئن کرنے کے لئے کافی تھا۔

پاکستان کے پولمیں بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا تھیں جنکہ دوسرا پول میزبان برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈاور بنگلہ دیش پر مشتمل تھا۔ پاکستان کا پہلا میچ بھارت سے تھا اور پہلے میچ میں پاکستان کے آٹھویں نمبر والی ٹیم کی کارکردگی ہی دکھائی۔ بھارت نے بآسانی پاکستان کو ایک سو تئیس رنز سے شکست دی۔ بیٹنگ، بائولنگ اور فیلڈنگ کسی شعبے میں بھی پاکستان ٹیم نے قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

اس شکست کے بعد پاکستان کے لئے اگلے دونوں میچ ‘مرو یا مر جائو’ کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اگلا میچ عالمی نمبرون جنوبی افریقہ سے تھا۔ پاکستان نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کو دو سو انیس تک محدود کر دیا۔ اس کے بعد پاکستان نے ستائیس اوورز میں تین وکٹ پر ایک سو انیس رنز بنائے تھے کہ بارش ہو گئی۔ پاکستان ڈک ورتھ لوئیس طریقے کے مطابق فاتح قرار پایا۔

پاکستان اور سری لنکا کا میچ ایک لحاظ سے کورٹر فائنل تھا، جیتنے والی ٹیم سیمی فائنل میں جاتی اور ہارنے والی گھر۔ پاکستان نے سری لنکا کو دو سو اڑتیس تک محدودکیا اور اچھا آغاز  کے باعث جیت یقینی تھی کہ پاکستان کی وکٹیں دھڑا دھڑ گرنے لگیں۔ ایک موقع پر پاکستان کو ستر سےزائد رنز درکار تھے اور اس کی محض تین وکٹیں باقی تھیں۔ سرفراز اور عامر نے دھیرے دھیرے اسکور کو بڑھانا شروع کیا تو قسمت نے بھی پاکستان کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ ایک اوور تھرو پر پانچ رنز ملے تو جلد ہی سرفراز کے دو نسبتاً آسان کیچ سری لنکا کے فیلڈروں نے چھوڑ کر اپنی شکست پر مہر لگا دی۔پاکستان جیت کر سیمی فائنل میں جا پہنچا۔

سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ برطانیہ سے تھا جواپنے تینوں میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچا تھا۔ پاکستان نے ایک بار پھر پہلے بائولنگ کی اور انگلش ٹیم کو دو سو گیارہ پر ڈھیر کر دیا۔ مطلوبہ سکور پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر پورا کر کے فائنل میں جگہ پکی کر لی۔ دوسرے سیمی فائنل میں بھارت نے بنگلہ دیش کو زیر کر کے پاکستان سے مقابلے کے لئے جگہ پکی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں پاکستان کرکٹ پر وار کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور قدرت نے دونوں کو پاکستان سے کھیلنے پر مجبور کر دیا۔

فائنل میں پاکستان کو بھارت نے بیٹنگ کی دعوت دی۔ فائنل ایک حیرت انگیز میچ تھا کہ اس میں بہت کچھ توقعات کے خلاف ہوا۔ابتدا میں فخر زمان آئوٹ ہوئے مگر وہ نو بال نکل آئی۔ اسکے بعد اظہر علی جو کہ سست بیٹنگ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں وہ فخر زمان سے تیز کھیلے دکھائی دیئے۔ اس کے علاوہ محمد حفیظ نے بھی کافی تیز بیٹنگ کی۔ فخر زمان نے شاندار سینکڑا سکور کیا۔ پاکستان نے توقعات سے زائد یعنی کہ تین سو اڑتیس رنز کا مجموعہ بورڈپر سجا دیا۔بھارت کی توقعات کا مرکز ان کے ابتدائی بلے باز تھے۔ شرما، دھون اور کوہلی کسی بھی بائولنگ کے لئے ڈرائونا خوابہو سکتے ہیں مگر اس دن محمد عامر کے ارادے بھی خطرناک تھے۔ عامر نے ان تینوں کو اپنے پہلے ہی اسپیل میں چلتا کر کے بھارت کی شکست پر مہر لگا دی۔ کوہلی کاایک کیچ اظہر نے گرایا مگر اگلی ہی بال پر شاداب نے کیچ پکڑ لیا۔ دھون کی مزاحمت بھی ابتدائی دس اوورز ہی رہی جبکہ شرما تو پہلے ہی اوور میں آئوٹ ہو گیا تھا۔ دھونی اور یوراج بھی جلد ہی آئوٹ ہو گئے۔ اس کے  بعد رسمی کارروائی باقی تھی۔ پاکستان نے بھارت کو ایک سو اسی رنز کے بھاری فرق سے شکست دے کر پہلی مرتبہ چیمپئن ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ عالمی کپ 1992 کے بعد پچاس اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کا دوسرا بڑا اعزاز ہے اور اس مرتنہ بھی یہ اعزاز رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نصیب ہوا۔اس مہینے میں اللہ کی رحمتیں عروج پر ہوتی ہیں اور اس کا مظاہرہ اس ٹورنامنٹ میں بھی ہوا۔ وہاب ریاض اور احمد شہزاد کی فارم بالکل ٹھیک نہیں تھی۔ وہاب ریاض ان فٹ ہوئے اور احمد شہزاد کی جگہ فخر زمان کو موقع ملا۔ اس کا پاکستان کو خوب فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ بھی جس کھلاڑی کو موقع ملا اس نے قابل ذکر کارکردگی دکھائی۔ شاداب خان،فہیم اشرف اور روما رئیس سب نے ہی اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔

اس کارکردگی پر قومی ٹیم کی ستائش بھی جاری ہے۔ وزیرِ اعظم، کرکٹ بورڈ اور دیگر اداروں نے قومی ٹیم کو گرانقدر انعامات سے نوازا ہے اور یہ اس کے مستحق بھی ہیں۔پہلی بار ایسا ہوا کہ آٹھویں درجہ بندی کی ٹیم نے کوئی اتنا بڑا ٹورنامنٹ جیتا ہے۔تاہم کھلاڑیوں کو اپنے پائوں زمین پر رکھتے ہوئے مزید اچھی سے اچھی کارکردگی دکھانی چاہیے تا کہ یہ ٹرافی ‘تکا ‘ ثابت نہ ہو اور سب لوگ تسلیم کریں کہ پاکستان اس جیت کا مستحق تھا۔