Leave a comment

تصویر

قصہ ہے آج سے کم و بیش تین عشرے قبل کا۔ انٹرنیٹ کا وجود نہیں تھا کم از کم پاکستان میں تو بالکل بھی نہیں تھا۔ ملک میں پاکستان ٹیلی ویژن نامی ایک ٹیلی ویژن ادارہ تھا جس کی نشریات بھی شام چار بجے سے کوئی رات گیارہ بارہ بجے تک ہی جاری رہتی تھیں۔ ہمارا ٹیلی ویژن بلکہ اکثر لوگوں کے ٹی وی رنگین کے بجائے سفید و سیاہ تھے۔رنگین ٹی وی خال خال لوگوں کے پاس ہی ہوتا تھا۔ یہ دور ریڈیو کا دور تھا۔ ہر گھر  میں ریڈیو ہوتا تھااور اس کی نشریات چوبیس گھنٹے لگاتار جاری رہتی تھیں۔ یہ صداکاری کا دور تھا۔ آواز سے ہی انسان کی شخصیت کا خاکہ بناتا تھا سننے والا۔ جو زیادہ شوقین ہوتے تھے وہ جیبی ٹرانسسٹر لیے گھومتے ریتے تھے اور اس زمانے میں یہی صاحبِ حیثیت ہونے کی نشانی یعنی  کہ سٹیٹس سمبل تھا۔

اخبارات ایک اور ذریعہ تھے دنیا سے آگاہی کا۔ اخبارات   اس دور میں بھی اشتہارات پر ہی چلتے تھے مگر وہ بھی سیاہ و سفید۔ رنگین اشتہار نادر ونایاب۔ حتٰی کہ خواتین کے شناختی کارڈ پر بھی تصویر نہیں ہوتی تھی۔  زمانہ بھی خواتین کا ا حترام کرتا تھا اور لیڈی پولیس کا بھی رواج نہ تھا تو مرد خود ہی  وقت ضرورت   برقعہ  اوڑھ کے خاتون  کے کام کر آتا۔اس کا ووٹ دے آتا اور اگر بہن پڑھائی میں کوری ہوتی تو تین گھنٹے کے لئےمسمی عبدالغفور  مسماۃ مریم بی بی بن جاتا تھا۔ آخر بھائی ہی تو بہنوں کے کام آتے ہیں۔ ادھر میاں بیوی مختلف جماعتوں سے متعلق ہوتے تو بھی میاں اسی طریق پر عمل کر کے اپنے پسندیدہ امیدوار کے ووٹ بڑھاتے تھے۔

موبائل تو درکنار کیمرہ بھی بمشکل ہوتا تھا گھر میں جو کہ صندوق اور بکسوں میں محو استراحت رہتا تھا۔شادی یا کسی اور تقریب میں اسے کور سے نکالتے تھے اور دوکان پر لے جاتے تھے۔ دوکان والا کیمرہ دیکھ کے اس میں گاہک کے حسب خواہش فلم ڈال دیتا تھا۔۔ اب اس میں تین یا چار درجن  تصاریر لینے کی گنجائش ہوتی تھی۔ اب بندہ یہی سوچتا رہتا تھا کہ کب تصویر لینی کب نہیں اور اسی کشمکش میں اہم مواقع اکثر کیمرہ کی آنکھ سے محفوظ رہ جاتے تھے۔ تقریب کے بعد کیمرہ دوبارہ دوکان پر جاتا تھا اور وہ فلم صاف کر کے تصاویر بنا کر گاہک کے حوالے کرتے تھے۔ اس کام میں چار چھ دن لگ جاتے تھے اور اس کے بعد تصاویر دیکھ کر تقریب والوں کا منہ بن جاتا تھا غیر متعلقہ لوگوں کی  تو ہنسی  ہی نکل جاتی تھی کہ یہ کون  ہیں ‘ کچھ دیکھے دیکھے لگتے  ہیں۔ اگر اتفاق سے کوئی اچھی تصویر آ جاتی تھی تو وہ فریم کروا لی جاتی تھی اور ان دنوں کی یادگار رہتی تھی۔اور موقع بموقع استعمال کی جاتی تھی۔  شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر بھی عام تصویر ہی لگتی تھی سو اپنی پسند کی ہی تصویر دی جاتی تھی۔  اب بھلے شناختی کارڈ بنانے والے صاحب کہیں کہ یہ تمھاری تصویر تو نہیں لگتی تو پشت پر گریڈ سترہ کے افسر کے دستخط دیکھ کر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ ہمیں اپنے نانا دادا کی ایک ہی تصویر ملی۔خود عمران سیریز والے مظہر کلیم صاحب کی وہی تصویر کوئی تیس سال سے تو ہم دیکھ رہے۔ ہم نے بھی انجنئرنگ کے بعد ایک اچھی سی تصویر بنوائی اور پھر شادی تک اسے ہی استعمال کیا۔ شادی پر بھی وہی تصویر بھیجی تو انکارہو گیا کہ اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ ہماری بیٹی کیسے رہے گی تو ہمیں وہ تصویر بدلنی پڑی۔

اب نیا زمانہ ہے۔ اب تو موقع پر ہی تصویر لیتے ہیں بلکہ انگلیوں کے نشان بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔ خواتین تک کو استثناء نہیں۔ تصویر تو لازم ہے۔ اب تو اخبار والوں نے بھی یہی ریت بنا لی کہ کالم مضمون جو مرضی بھیجو مگر اپنی تصویر ساتھ لازمی ہو۔ ایک دو کو ہم نے کہا کہ کالم دیکھو چھوڑو تصویر کو تو کہنے لگے کہ تصویر لازمی ہے کالم کے لئے۔ بلکہ ایک نے تو کہا کہ بھائی چھوڑو کالم کو اپنی تصویر بھیج دو۔ وہ ہم نرگس اور فیصل کےموبائل والے اشتہار کے  ساتھ لگا دیں گے تو راتوں رات کالم نگاروں سے زیادہ معروف ہو جائو گے۔ایک بار تو سوچا کہ دل کڑا کرکے بھیج ہی دیں

گر ہوئے بدنام تو کیا نام نہ ہو گا

مگر پھر ہماری مشرقیت ہم پر غالب آ گئی۔ہم نے ان سے معذرت کر لی۔ نئی نسل کا جنون تو تصویر کے متعلق اور بھی سوا ہے۔ بستر میں آنکھ کھلتے ہی انگڑائی لیتے ہوئے موبائل سے تصویر بنا کر فیس بک پر لگا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اپنا ہر ہر عمل ریکارڈ کرتے ہیں۔ باتھ روم میں جانے سے پہلے( اندر کی کا ابھی رواج نہیں ہوا)۔ کلاس میں لیکچر لیتے وقت کی سیلفی، دوستوں کے ساتھ کھانے پینے کی سیلفی اور اس کے علاوہ بھی رات سوتے تک ایک ایک لمحے کی تصاویر محفوظ کرتے ہیں اور دن میں کئی کئی بار فیس بک پر ظاہری تصویر بدلتے ہیں۔ فرشتوں کو ان کے اس عمل سے کافی فائدہ ہو گیا ہے کہ اب فرشتوں کے پاس بیک اپ ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے۔ہم لوگ دن میں اتنی بار نماز نہیں پڑھتے جتنی بار اپنے تصاریربدلتے ہیں۔  

ایک بار کسی نے ہماری آئی ڈی ہیک کر لی۔ دراصل ہمارا علم فیس بک سے متعلق بالکل واجبی سا ہے۔ ہمیں بنیادی کام کرنے آتے ہیں اور بس۔ تو ہوا کچھ یوں کہ ایک صاحبہ نے ہمیں ان باکس میں کچھ بھیجا۔کہا کہ تحفہ ہے،ذرا کھول کے دیکھیں۔ اب تحفہ ہو اور وہ بھی جنس مخالف کی طرف سے تو کوئی کیوں نہ کھولے۔ ہم نے کھولا اور پھر ایک چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ یعنی کہ ہماری آئی ڈی ہماری نہ رہی۔آئی ڈی میں ایسا کوئی مواد تو تھا نہیں کہ ہماری لئے پریشانی کا باعث بنتا مگر یہ خیال ضرور دامن گیر تھا کہ ان اتنے دوست اکٹھے کیسے کریں گے نئی آئی ڈی پر۔ پریشانی میں ہم سو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد موبائل بجنے لگے کہ بھائی اٹھو تمھارے کھاتے سے تصاویر لڑکیوں کی پھیلائی جا رہیں۔ ہم نے نیٹ چلا کر دیکھا تو واقعتًا ایسا ہی تھا۔  معلوم نہیں کس کی تصاویر تھیں اور اس پر ابن نیاز کے چسکے۔۔۔۔ پروفیسر یہ کون ہے؟ پہلے تو کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ نیا عشق شروع کر دیا ہے کیا۔ یہ  بھی خیال نہ کیا کہ  ہم تو اتنے مشرقی ہیں کہ اپنی تصویر  لگانے سے بھی گریزاں رہتے ہیں  کجا کہ کسی  خاتون  کی تصویر۔ ہم نے صبر کے گھونٹ پیے اوراپنا کھاتا بند کیا۔اس کے بعد اپنا پاس ورڈ تبدیل کیا اور پھر ہمارا کھاتہ دوبارہ سے کھلا۔

ہر چیز کے کچھ فائدے نہیں تو اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔نوے کے عشرے کے وسط تک پاکستان کی ہاکی ٹیم کا شمار دنیا کی چار بہترین ٹیموں میں ہوتا تھا۔ اور 1994 میں پاکستان نے آخری مرتبہ ہاکی کا عالمی  کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی اور اس ٹیم کے گول کیپر منصور احمد تھے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہاکی کا گول کیپر اپنے آپ کو گیندسے بچانے کے لئے مختلف اشیاء میں مکمل طور پر ڈھکا ہوتا ہے اور اس کا جسم اور چہرہ بالکل نظر نہیں آتا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر منصور احمد کا انٹرویو چل رہا تھا تو ان سے میزبان نے پوچھا کہ جناب جب آُپ جیت کے آتے ہیں تو آپ کا بہت زبردست استقبال ہوتا ہے لوگ پھولوں اور ہاروں سے آپ  کو لاد دیتے ہیں اور بہت پیار ملتا ہے مگر جب ٹیم بری طرح پٹ کر آتی ہے تو آپ کو ٹماٹر اور انڈے بھی سہنا پرتے ہوں گے تو منصور احمد نے کہا کہ میری تو اکثر بچت ہو جاتی ہے کیونکہ مجھے لوگوں نے دیکھ نہیں رکھا ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ منصور پیچھے آ رہا ہے۔

اپنی رائے سے نوازیئے۔